تحریر: مہر بشارت صدیقی
پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں ایئرفورس کی بیس پر دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 29 افراد شہید جبکہ میجر سمیت 29 افراد زخمی ہو گئے۔ سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تمام 13 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔دہشت گردوں نے علی الصبح 5 بج کر20منٹ پر پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں واقع ایئرفورس کے بیس کیمپ پر اس وقت حملہ کر دیا جب لوگ نماز فجر کی تیاری کر رہے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گردوں کی تعداد تیرہ سے چودہ تھی، فرنٹیئر کا نسٹیبلری کے یونیفارم میں ملبوس دہشت گرد سفید رنگ کی بغیر نمبر پلیٹ کی سوزوکی وین میں سوار ہو کر آئے اور دو اطراف سے بیس کیمپ میں داخل ہوئے اور انتظامیہ اور ٹیکنیکل بلاک پر حملہ آور ہوئے۔ ایک گروپ کیمپ کے سامنے سے مین گیٹ سے جبکہ دوسرا گروپ کیمپ کی پچھلی طرف سے 14 فٹ کی دیوار پھلانگ کر کیمپ میں داخل ہوا۔
مین گیٹ سے داخل ہونے والوں کو سب سے پہلے بیس کے گارڈ روم میں تعینات ائیر فورس کے جونیئر ٹیکنیشن شان علی ، ثاقب جاوید اور طارق عباس نے روک لیا جو اس کارروائی کے نتیجے میں شہید ہو گئے تاہم انہوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے 5 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ اسی دوران کوئیک ری ایکشن فورس کی نفری بھی موقع پر پہنچ گئی، دہشت گردوں نے سکیورٹی حصار توڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔پشاور حملے کے فوری بعد وزیراعظم نوازشریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ایئرچیف سہیل امان ہنگامی طور پر پشاور پہنچے۔ انہوں نے کور ہیڈکوارٹرز میں کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن سے ملاقات کی اور پشاور حملے پر بریفنگ لی، بعد میں انہوں نے بڈھ بیر کیمپ کا بھی دورہ کیا اور تعینات فوجی دستوں سے ملاقات کی۔ آرمی چیف اور ایئر چیف نے سی ایم ایچ پشاور میں زخمیوں کی عیادت بھی کی اور جوانوں کے حوصلے کو سراہا۔
بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف بھی پشاور پہنچ گئے ، وفاقی وزرا خواجہ آصف، پرویز رشید بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم نواز شریف کو کور ہیڈکوارٹرز میں آپریشن سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی، اس موقع پر آرمی چیف اور ایئر چیف بھی موجود تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ پشاور کے قریب پاک فضائیہ کی بڈھ بیر ائیربیس پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔دہشت گرد افغانستان سے آئے اور حملہ افغانستان سے ہی کنٹرول ہوا، امید ہے افغان حکومت کا اس میں عمل دخل نہیں ہوگا۔ دہشت گرد اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ حملے میں کالعدم تحریک طالبان کا گروپ ملوث ہے ، حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور اس کو کنٹرول بھی وہاں سے کیا جا رہا تھا اور حملہ آور بھی افغانستان سے آئے تھے۔
انٹیلی جنس ادارے مزید تحقیقات کر رہے ہیں، اس لیے اس پر زیادہ بات نہیں کروں گا، انہوں نے کہا کہ افغانستان سے متعلق ملنے والی معلومات انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں، کچھ فون کالز بھی ٹریس کی گئی ہیں، جن کی تفصیلات مکمل تحقیقات کے بعد سامنے لائی جائیں گی۔ دہشت گردوں کے قبضے سے راکٹ لانچر، فائرنگ کیلئے استعمال ہونے والا مختلف ساخت کا اسلحہ، ہینڈ گرنیڈ اور خود کش جیکٹس برآمد کی گئیں، دہشت گردوں میں خودکش بمبار نہیں تھے۔ دہشت گرد راکٹ لانچرز اور دستی بموں سے لیس تھے بیس میں موجود دو ڈھائی ہزار لوگوں کو شہید کرنا چاہتے تھے تاہم انہیں حساس علاقے سے بہت دور ہی ختم کردیا گیا۔ کیمپ میں پہنچنے والا کوئی دہشت گرد بچ نہیں سکا۔ دہشتگرد کس علاقے میں ٹھہرے اس کی تحقیقات ہو رہی ہیں، دہشتگرد آگے جا کر اور لوگوں کو مارنا چاہتے تھے ، کیمپ میں بہت سارے سویلین کام کرتے تھے ، انہوں نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا کہ ”ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کو کیمپ سے بھی مدد ملی ہو”، دہشت گردوں کیخلاف بڑا آپریشن ہو رہا ہے ، دہشت گردوں کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ہے ، کوئی ریاست اس قسم کا کام نہیں کرسکتی۔عاصم باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم متحدہے ، دہشتگردوں کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔
ہم ہر قیمت پر ملک کا دفاع کریں گے اور انشااللہ تعالیٰ اس ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کریں گے۔انٹیلی جنس ادارے معلومات اکٹھی کررہے ہیں ایسی کوئی چیز آئی تو سامنے لائیں گے۔ ضرب عضب کے بعد ملک میں امن قائم ہوا ہے ، پاکستان اور بیرون ملک میں ہمارے دشمنوں کو تکلیف ہے ،ضرب عضب کو ضرب لگانا چاہتے تھے ، صفورا حملہ، رشید گوڈیل، سبین محمود، کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کے حملوں میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ، ہمارے حوصلے بلند ہیں، دہشتگردوں، ہمدردوں اور سہولت کاروں کے خلاف آپریشن جاری رہیگا۔قبائلی علاقوں میں دہشت گروں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں پر بمباری میں مصروف پاکستان فضائیہ کی تنصیبات کو شدت پسندوں کی جانب سے گزشتہ آٹھ سال سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔پشاور میں بڈا پیر میں پاکستان فضائیہ کی بیس پر حملے سے قبل بھی کراچی، کوئٹہ، کامرہ اور پشاور میں پاکستان فضائیہ کی ایئر بیس اور ایئرپورٹس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔10 دسمبر2007کو پاکستان میں جنگی جہاز سازی کے مرکز کامرہ میں واقع ادارے پاکستان ایرو ناٹیکل کپملیکس کے فوجی گیٹ کے قریب پاکستان فضائیہ کی بس میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہوئے۔
اگلے ماہ یعنی 18 جنوری 2008 کو کامرہ پر دو راکٹ فائر کیے گئے لیکن ان میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 22 مئی کو 2011 کراچی میں پی این ایس پر حملہ کیا گیا، کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں دو اورین طیارے تباہ ہوئے اور دس اہلکار شہید ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد مارے گئے۔ 16 اگست 2012 کو ایک بار پھر کامرہ میں پاکستان فضائیہ کے اڈے پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو اہلکارشہیدہوگئے، فورسز کی فوری کارروائی میں نو حملہ آور مارے گئے۔ 15 دسمبر 2012 کو پشاور ایئرپورٹ پر دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی اور راکٹوں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 15 افراد جاں بحق اور 42 زخمی ہوگئے، جوابی کارروائی میں 5 دہشت گرد مارے گئے۔ 8جون 2014کو پاکستان کے سب سے بڑے ایئرپورٹ، جناح انٹرنیشنل پر حملہ کیا گیا، رات بھر جاری رہنے والی کارروائی میں دس حملہ آوروں سمیت 26 افراد جاں بحق ہوئے۔14اگست 2014 کو کوئٹہ میں پاکستان ایئر فورس کی سمنگلی ایئر بیس پر حملہ کیا گیا، فوری کارروائی میں 11دہشت گرد مارے گئے جبکہ دس کے قریب اہلکار زخمی ہوئے۔
اس سے قبل 2009 میں جب سوات میں راہ حق اور راہ نجات آپریشن شروع کیا گیا تھا تو پاکستان بھر میں سکیورٹی اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا تھا اور خود کش حملوں کی ایک شدید لہر اٹھی تھی۔مارچ 2009 کو مناواں پولیس تربیت سینٹر پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں اہلکاروں سمیت 15 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں چار دہشت گرد مارے گئے۔ 27 مئی 2009 کو لاہور میں آئی ایس آئی کے دفتر سے بارودی گاڑی ٹکرا دی گئی جس کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ 10اکتوبر2009کو دہشت گردوں نے راولپنڈی میں واقع پاکستان فوج کے دل و دماغ جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں افسروں سمیت دس اہلکار شہید ہوئے جبکہ چار دہشت گرد مارے گئے۔ 15 اکتوبر 2009 کو لاہور میں آیف آئی اے کے دفتر پر حملے کے ساتھ ایک بار پھر مناواں میں پولیس سینٹر پر حملہ کیا گیا جس میں آٹھ سکیورٹی اہلکاروں سمیت 16 افراد جاں بحق جبکہ جوابی کارروائی میں 8 حملہ آور مارے گئے۔ 16 اگست 2012 کو کامرہ میں پاکستان فضائیہ کے اڈے پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں دو اہلکار شہید ہوگئے۔8 دسمبر 2009 کوملتان میں آئی ایس آئی کے دفتر کو نشانہ بنایا گیا جس میں 15 افراد جاں بحق ہوئے، بارود سے بھری ہوئی گاڑی ٹکرانے کی وجہ سے آس پاس کی عمارتیں بھی شدید متاثر ہوئیں۔10 جولائی2010 کو کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف سرگرم ادارے سی آئی ڈی کی عمارت سے بارود سے بھری گاڑی ٹکرائی گئی جس کے نتیجے میں اہلکاروں اور ان کے رشتے داروں سمیت 18 افراد جاں بحق جبکہ 100 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ 24جولائی 2013 میں سکھر میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے اور بم دھماکوں میں آٹھ افراد جاں بحق ہوئے جبکہ چار حملہ آور جوابی کارروائی کے دوران مارے گئے، کراچی کے بعد اندرون سندھ میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا حملہ تھا۔پشاورمیں آرمی پبلک سکول کے بعد ایئربیس پر دہشت گردوں کا بڑاحملہ ہواہے ،دونوں حملوں میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے دونوں حملوں میں دہشت گردوں کی تعدادا ورطریقہ واردات ایک جیساتھا،دونوں باردہشتگردوں نے سکیورٹی اہلکاروں کی وردیاں استعمال کیں ،مخصوص کمپنی کے جوگرزاورگھڑیاں پہنیں،اسی طرح گاڑی میں آئے ، کم آبادی والے علاقوں سے داخل ہوئے ،گروپوں میں بٹ کراٹیک کیا،نہتے لوگوں کوگولیوں کانشانہ بنایا،جوابی کارروائی میں سب مارے گئے۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی