تحریر : شہزاد حسین بھٹی
ملک میں جاری حالیہ پیٹرول بحران کے تناظر میں میرے عزیز دوست ڈاکٹر شجاع اختر اعوان نے حکومتی کارکردگی ایک طنزیہ ایس ایم ایس بھیجا کہ “ملک میں جاری پیٹرول بحران سے نمٹنے اور مستقبل میں ایسے بحرانوں کی روک تھام کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے ملٹری کورٹس کی طرح ملٹری پیڑول پمپس ،ملٹری سی این جی اور ملٹری بجلی گھر بھی بنائے جائیں تاکہ عوام کو جمہوریت کے حسن سے خاطر خواہ فوائد میسر آسکیں عوام اب اس لولی لنگڑی جمہوریت سے تنگ آکر چکے ہیںاور انہیں اب ہر مسئلے کے حل کے لیئے افواج پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے “۔یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ پیٹرول بحران ایک دو دن نہیں بلکہ مہینوں پر محیط ہو سکتاہے کیونکہ ” ابھی تو لائینیں شروع ہوئی ہیں “ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر ،بجلی ,گیس ،بے روز گاری ،مہنگائی ،پیٹرول اور دیگر بحرانوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں میڈیا تواتر سے شور برپا کیے ہوئے ہے لیکن حیرت ہے کہ حکومتی نمائندوں کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ان بحرانوں کو ختم نہ کیئے جانے پر حکمرانوں کا ہمیشہ سے ہی یہی موقف رہا ہے کہ یہ بحران سابقہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ورثہ میں ملا ہے۔ حکومت کی نا اہلی کا نتیجہ ہے کہ پیٹرول کا بحران اس قدر سنگین ہو گیا ہے کہ ملک کے پچانوے فیصد پیٹرول پمپ بند پڑے ہیںجبکہ با اثر مافیا گروپ پیٹرول کی قلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پیٹرول مقررہ ریٹ کی بجائے من پسند ریٹوں پر فروخت کر کے کروڑوں روپے اپنی تجوریوں میں ڈال رہے ہیں۔
کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے تاکہ پنجاب بھرمیں سی این جی کو کھولنے کے لیئے جواز مہیا کیا جا سکے کیونکہ بظاہر یہ پیٹرول بحران صرف پنجاب میں ہی ہے اگر سی این جی کو پورے پنجاب میں کھولا جا تا ہے تواس سے گھریلو چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور نتیجتاً عوام بشمول خواتین دوبارہ سڑکوں پر ہوں گے ۔یہ اطلاعات بھی ہیںکہ ملک میں فرنس آئل کے ذخائر بھی ایک آدھ دن کے رہ گئے ہیںاور فرنس آئل کے بر وقت بجلی گھروں میں سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیدا وار معطل ہو سکتی ہے اور ملک دوبارہ اندھیروں میں ڈوب سکتا ہے کیونکہ فرنس آئل کی درآمد کی جانب بھی توجہ نہ دی گئی ہے ۔حکومتی بیانات کے مطابق 65000 ٹن وزنی بحری جہاز بائیس جنوری کو کراچی پہنچے گا جبکہ دو مزید جہاز اگلے پندرہ سے بیس دنوں میں پہنچ جائیںگے جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بحران وسط فر وری سے پہلے حل ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ایک واقعہ یاد آیا کہ
“جارج آر ویل برطانوی اعلیٰ فوجی افسر تھا اور وہ برما کے محاذ پر تعینات تھا وہ جانوروں سے بہت پیار کرتا تھا ایک دفعہ ایک بد مست ہاتھی ایک گاؤں میں فصلوں کو روز تباہ کر دیتا تھا گاؤں کے لوگ اپنی پریشانی لے کر جارج آر ویل کے پاس گئے کہ صاحب ایک بد مست ہاتھی روزانہ ہماری فصلوں کواُجھاڑدیتا ہے اس سے ہمیں نجات دلائی جائے۔
جارج آر ویل فوراً اپنی بندوق اُٹھا کر گاؤں والوں کے ساتھ کھیتوں میں جاتاہے جہاں بد مست ہاتھی موجود تھا وہ اس کا نشانہ لیتاہے اور گولی مارنے سے پہلے اس کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ ایک جانور ہے میں اسے کیسے مار سکتا ہوں مگر دوسرے ہی لمحے اسے دوسرا خیال آتا ہے کہ اگر میں اسے نہیں ماروں گا تو گاؤں والے سمجھیںگے کہ حکومت برطانیہ کمزور دل لوگوں پر مشتمل ہے ۔اور تاج برطانیہ کا جو رعب ان لوگوں پر قائم ہے وہ ختم ہو جائے گا ۔لہذا وہ نہ چاہتے ہو ئے بھی ہاتھی کو گولی مار دیتا ہے جس سے گاؤں والوں کو ا س بد مست ہاتھی سے نجات مل جاتی ہے اور وہ جارج آر ویل کو ایک بہادر آفیسر تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے وطن واپسی کے بعد پیٹرول بحران پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیئے آج ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہ بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ گذشتہ ایک ہفتے سے ہے یا تو وزیراعظم کو ان کے اردگرد خوشامدی ٹولے نے سب اچھا کی رپورٹ دی ہے یا پھر وہ جانتے تھے اور جب بات حد سے بڑھ گئی تو وزرات پیٹرولیم کے چار اعلیٰ افسران کی بلی دے دی گئی تاکہ عوام میں جارج آر ویل کی طرح کارکردگی کی دھاگ بٹھائی جا سکے ۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ حکومت پیٹرول بحران کو حل کر نے کے لیئے افواج پاکستان کے پیٹرول ذخائر سے استعفادہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ انتہائی سنگین غلطی ہو گی ۔افواج پاکستان آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیںاور ملک میں ایمر جنسی یا جنگ میں افواج پاکستان کے پاس تیل کے ذخائر انکی بنیادی ضرورت ہیں۔
حکومت نے عوام کو حکومتی اقدامات دیکھانے کے فوری طور پر سیکرٹری پیٹرولیم سمیت چار اعلیٰ افسران کو معطل کرکے حکومت پاکستان کی ایکشن لینے کی ذمہ داری پوری کر دی جبکہ ہماری نظرمیں پیٹرول بحران کے اصل ذمہ دار وزیر پیٹرولیم ،وزیر خزانہ اور وزیر اعظم خود ہیں۔حکومتی اداروں کے دو سو ارب کے واجبات کا رونا رونے پر پی ایس او کو صرف سترہ ارب روپے دیئے گئے جس سے وہ عالمی منڈی میں کیا آرڈر دیتا واقفانِ حال تو یہ کہتے ہیںکہ مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی اپنے محکموں پر نظر ہی نہیں ہے وہ تو مال بنانے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔کچھ عرصہ قبل وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی ناک تلے ریلوے ٹرینوں کے ذریعے اسلحے کی اسمگلنگ کے دھرنے کا انکشاف ایک نجی ٹی وی پروگرام میں کیا گیا تو ان کو ہوش آیا ۔ اسی طرح وزیر پیٹرولیم بھی خواب خرگوش سے تب جاگے جب پیٹرول بحران عروج پر پہنچ گیا ۔سیکرٹری پیٹرولیم کو فارغ کر دینے سے ذمہ داری ختم نہیں ہو جا تی وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرانے کے لیئے وزیر پیٹرولیم سے فوری استعفیٰ طلب کریں۔جو حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہے ۔کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ جو کام عمران خان دھرنے سے نہ کر سکا وہ کام یار لوگ میرا مطلب ہے حکومتی وزراء نے کر دیکھایا ۔شاہد خاقان عباسی الٹی گنتی گن رہے ہیںاور ابھی تک ان کے بیانات سمجھ سے بالاتر ہیںمثلاً نجی کمپنیاں پیٹرول بحران کی ذمہ دار ہیں ” سوال یہ ہے کہ مان لیا کہ پیٹرول کمپنیاں ذمہ دار ہیںلیکن ان سے پوچھ گچھ تو آپ نے کر نی ہے آپ نے کیوں چیک اینڈ بیلنس کا نظام واضح نہیں کیا ؟یہ انکی نہیں آپکی ذمہ داری تھی ۔اور اگر آپ میں ذرا سا بھی عقل و دانش اور جمہوریت کی سمجھ ہے تو فوری طور پر اپنی ناکامی قبو ل کریں اور پیٹرولیم وزیر کا عہدہ خالی کریں۔
حکومتی وزیر خواجہ سعد رفیق کہتے ہیںکہ پیٹرول بحران حکومت کی کو تاہی ہے ۔قوم سے معافی مانگتے ہیں۔اسی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی پیٹرول بحران کو حکومتی نا اہلی سے تعبیر کیا ہے ۔سب باتیں اپنی جگہ کیا یہی گردن توڑ گڈ گورننس ہے ؟ کیا یہی کچھ اس حکومت نے کرنا ہے ؟ جب گیس ، پانی ،بجلی اور پیٹرول یہ سب نہیں ہو گا تو عوام نے میٹرو، میگا پراجیکٹس اور پاور پراجیکٹس کو چاٹنا ہے؟ تھر کول پاور پراجیکٹ پر حکومت پہلے ہی توجہ نہیں دے رہی جہاں سے کو ئلہ کی شکل میں فیول دستیاب ہو نا ہے جب کوئلہ ہی نہیں ہو گا تو پھر آپ اپنے پراجیکٹس کیسے چلائیں گے عوامی حلقوں کی یہ بات درست ہے کہ جب تک دھرنا رہا حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب رہی جونہی پشاور سانحہ کی وجہ سے دھرنا ختم ہو ا ۔عوام کو بجلی ،گیس اور پیٹرول جیسے بحرانوں سے سامنا شروع ہو گیا۔
عوام تو اب یہ کہنے لگ گئے ہیںکہ اس لولی لنگڑی جمہوریت سے ملٹری جمہوریت اچھی تھی جس میں عوام کو کم از کم اس طرح کے بحرانوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا ۔جس میں روزگار کو فروغ حاصل ہو ا۔لوگوںکی قوت خرید میں اضافہ ہو ا ۔اور لوگوں کو ضروریات زندگی پوری طرح میسر تھیں۔ملک ترقی کر رہا تھا ،اکانومی کا گراف دن بدن اوپر جا رہا تھا ،ادارے کرپشن سے پاک ہو رہے تھے،بنکوں سے لوگوں کو قرض مل رہے تھے ،بجلی ،پانی ،گیس اور پیٹرول کے بحران تو کم از کم نہیں تھے گویا نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا ۔اب تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ موجودہ حکومت ہمیں کیسے سیارے پر لے گئی ہے جہاں پر نہ پانی ہے ، نہ بجلی ہے، نہ گیس ہے اور نہ دیگر ضروریات زندگی کی سہولیات میسر ہیںگویا ترقی کا یہ سفر ہمیں چاند پر لے گیا ہے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی