فوج اگر دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرتی ہے تو کہتے ہیں دہشت گرد ری ایکشن میں دھماکے کرتے ہیں جب وہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے فوج نے ری ایکشن میں آپریشن شروع کیا ہے ۔اس ایکشن ری ایکشن میں حکمران صرف مال بنا رہے ہیں یا ثبوت مٹانے میں لگے ہیں ۔کہتے ہیں خطرناک دہشت گرد گلگت جیل توڑ کر بھاگ گئے ،جیل تو ٹوٹی ہی نہیں اندر سے ملی بھگت کر کے بھگایا گیا ۔جب سانحہ نانگا پربت ہوا تھا۔
گلگت سکردو کے مشہور ہوٹل شنگریلہ کے ویٹر تک جانتے تھے سیاحوں کا قتل کس نے اور کیوں کیا ہے ۔تو کیا ایک آرمی ہی بے خبر تھی؟نہیں ۔” حساب لینے کا وقت اب آیا ہے لیکن بد قسمتی سے انہوں نے دہشت گردوں کو ہی اپنا نجات دھندہ سمجھ لیا ہے ۔قول و فعل کے تضادات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اپنے ہی دام میں صیاد آ رہے ہیں مگر بیان بازیاں ان کی ملاحظہ کریں تو۔۔۔۔
چھانگا مانگا فیم وزیر اعظم نے کہا ہے پیسے دیکر ووٹ خریدنا یعنی ”ہارس ٹریڈنگ ” ایک مکروہ فعل ہے ۔منجھے ہوئے کھلاڑی سوری منجھے ہوئے سیاستدان چودھری شجاعت حسین نے اسے ” کھوتا ٹریڈنگ ” کہا ہے ۔قوم کیا کرے جو مسلسل اس مکروہ فعل کی بھینٹ چڑھ رہی ہے جو ہماری سیاست کا اور جمہوریت کا حسن بن چکا ہے ۔مک مکا کی اس سیاست میں پورا نظام کرپٹ ہو چکا ہے جس کی بولی نہیں لگتی وہ یا تو ایماندار ہوتا ہے یا بیکارباقی سب اپنے اپنے ماتھے پہ برائے فروخت کا ٹیگ لگائے پھرتے ہیں اداروں کا تقدس تباہ ہو چکا ،لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا اب تو ایمان کا بھرم رکھنا ہی مشکل ہو چکا ہے
قسم سے مشرف ایسی بد دعا دے کر گئے ہیں ”کہ پاکستان کا اللہ حافظ ” تب سے ملک مسلسل نیچے ہی نیچے جا رہا ہے تنزلی ہے کہ رکتی ہی نہیں ۔جب وزیر اعظم فرماتے ہیں ترقی کا سفر روکنے والے ناکام ہونگے تو حیرت کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کونسی ترقی؟
ہم نے کوئی ڈیم بنا لیئے؟توانائی وسائل میں خود کفیل ہو گئے ؟روزگار اور صحت کے مسائل حل ہو گئے اسکول ہسپتال فری ہو گئے یا امن و امان مثالی ہو گیا؟ترقی ہوتی کیا ہے ؟کہتے ہیں کسی بھی ملک کی عمومی صورت حال کا جائزہ اسکی سڑکوں پر ٹریفک کے اصولوں سے لگایا جا سکتا ہے یہاں یہ حال ہے کہ شائد جب لوگ سوتے ہیں تب ہی ان میں کوئی جھگڑا نہ ہوتا ہو ورنہ سارا دن سڑکوں پر گالی گلوچ اور مارا ماری جاری رہتی ہے یہ تو صرف سڑکوں کا حال ہے ،بینکوں میں تین تین سیکورٹی گارڈ ہونے کے باوجود ایک اکیلا آدمی بم دکھا کر صفایا کر جاتا ہے
کوئی شہر کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے ہر کوئی اپنی جان اور عزت کا تاوان بھر رہا ہے۔ انتہائی معتبر اور شریف گھرانوں میں بھی سر شام ڈاکو گھس جاتے ہیں جن کے رزق حلال کی گواہی دی جا سکتی ہے مگر لوٹنے والوں کو شرم نہیں آتی بلکہ وہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں ہم کیا کریں ہم مجبور ہیں یہ مقام عبرت ہے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے سر پہ آسمان ٹوٹ پڑتا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو تی لوگ حکومتی رٹ ڈھونڈتے پھرتے ہیں اب تو یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کیا حکومتی رٹ قائم کرنا فوج کی زمہ داری ہے ؟
اور اگر ہے تو پھر جو اقدام سندھ میں لیئے گئے ہیں وہ پنجاب میں کیوں نہیں؟کیا پنجاب میں حالات کنٹرول میں ہیں ؟میں تو سمجھتی ہوں پنجاب میں حالات زیادہ خراب ہیںکہ خود محافظ ڈکیت بنے ہوئے ہیں اوپر سے نیچے تک کرپشن کی گندگی میں لتھڑے ادارے عوام کو کیا تحفظ دے سکتے ہیں ۔اس قدرآپا دھاپی مچی ہوئی کہ الاامان۔ پیٹرول کی قیمت کم ہوئی تو پمپ بند ہو گئے لوگوں کو لائنوں میں لگ کر الٹا بلیک میں خریدنا پڑا ،بجلی چند پیسے سستی ہوئی بھی تو عوام تک پہنچنے سے پہلے غائب ہو گئی چیزوں کی قیمتیں بڑھنے کی خبر لگتے ہی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں مگر کم ہونے کی خبر کے بعد بھی وہی رہتی ہیں۔
اس کی وجہ بے یقینی ہے لوگوں کو اعتبار نہیں وہ سوچتے ہیں آج جتنا کما سکتے ہیں کما لیں کل ہو نہ ہو آج ہی کے اخبار میں خبر لگی ہے ”گندم سیزن 2015:پاسکو نے خریداری ہدف نصف کر دیا بحران کا خدشہ۔۔۔۔لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ دو ہزار تیرہ میں خریدی گئی گندم میں سے بھی ساڑھے بارہ لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں اور نئی فصل سنبھالنے کے لیئے گوداموں میں گنجائش نہیں ۔میں حیران ہوں ملک میں اتنی وافر گندم ہونے کے باوجود انڈیا سے کیوں منگوائی گئی اور تھر کے بچے بھوک سے مر گئے یہ اللہ کا عذاب نہیں حریص انسانوں کی ناقص حکمت عملی ہے جو دشمن کو فائدہ دے سکتے ہیں اپنی عوام کو نہیں۔
پولٹری ایسوسی ایشن کی طرف سے اپیل چھپی ہوئی تھی بنام وزیر اعلی اور وزیر اعظم ،کہ پولٹری مافیا اپنے من مانے ریٹس کے ذریعے اس پوری صنعت کو اپنے شکنجے میں لے لے گی جس سے لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے ۔یہی وہ خدشات ہیں جو لوگوں میں بے چینی اور بے یقینی کا باعث بنتے ہیں ،اس لیئے لوگ زخیرہ اندوزی اور بلیک میلنگ کر کے قیمتیں بڑھاتے ہیں ۔اگر ملک میں انارکی نہ ہو حکومتیں نا اہلی کا مظاہرہ نہ کریں ریاستی رٹ مضبوط ہو تو کبھی اس طرح کے حالات پیدہ نہ ہوں۔
لیکن اللہ پہ توکل ہو تو ان حالات سے بچا جائے ۔قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ ” میں لکھتے ہیں ایک شخص محمد دین نے ضلع لدھیانہ کے کسی گائوں میں آٹا پیسنے کی مشین لگائی ہوئی تھی اس نے اس کی مالیت دو ہزار دو سو روپے درج کی ہوئی تھی مشین خریدنے کی اصل رسید بھی درخواست کے ساتھ منسلک تھی ۔ہمارا بورڈ پانچ ہزار روپے سے زیادہ مالیت کے اثاثوں کا فیصلہ کرتا تھا ۔میں نے محمد دین سے کہا اگر اس نے اپنی مشین کی قیمت دو ہزار دو سو کی جگہ پانچ ہزار روپے درج کی ہوتی تو بورڈ اسے ضرور معاوضہ دے دیتا کیونکہ اس کے کاغذات بڑے صاف اور سچے ہیں ۔اس نے جواب دیا میری مشین کی قیمت ہی دو ہزار دو سو روپے ہے تو میں پانچ ہزار کیسے لکھ دیتا۔”
میں نے کہا۔” تم نے یہ مشین آٹھ برس پہلے خریدی تھی ۔اب تو قیمتیں بڑھ گئی ہیں اب تو اس کی قیمت پانچ ہزار سے اوپر ہو گی ۔”محمد دین ہنسا اور بولا آپ بھی بڑے بھولے ہو پرانی ہو کر مشین کی قیمت گھٹتی ہے بڑھا نہیں کرتی ۔”
اس زمانے میں بھی جب نیا نیا پاکستان بنا تھا ایسے اللہ توکل والے لوگ موجود تھے جو وہاں جاگیریں ،جائیدادیں چھوڑ کر آئے اور یہاں غربت اور سفید پوشی میں زند گیاں گذار دیں اور کچھ ایسے بھی تھے جو وہاں سے خالی ہاتھ اٹھ کر آئے اور یہاں جائیدادوں کے مالک بن گئے ۔دینے والی ذات اللہ کی ہے لیکن اللہ کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔
بات ساری یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ مسند اقتدار پہ براجمان لوگ کس قماش کے ہیں کیونکہ انکی زندگیاں عوام کے لیئے مثال ہوا کرتی ہیں ۔ان کے اعمال نہ پختہ ہونگے تو چوروں ڈاکوئوں کی بن آئے گی ایسے میں فوج عوام میں احساس تحفظ دے گی تو عوام کی آنکھوں کا تارہ بھی وہی بنے گی !
تحریر:مسز جمشید خاکوانی