تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
وفاق حکومت کی جانب سے دو ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات میں دو دفعہ کمی کا اعلان نہا یت ہی احسن اقدام ہے اس وقت وفاقی حکومت عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ برائے راست وطن عزیز میں بسنے والے ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش تو کی جا رہی ہے لیکن ٹرانسپورٹ اور آر ٹی سیکٹر یز کو لگام دینا مشکل نظر آرہا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو اس فائدے سے استفادہ کون دلائے گا کیونکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں اس وقت مختلف سیاسی حکومتیں قائم ہیں اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کرکے گیند کو صوبائی حکومتوں خصوصاً صو بہ کے پی کے میں قائم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے کورٹ میں پھینک دیا۔
پنجاب میں مکمل طور پر مسلم لیگ کی حکومت قائم ہے جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت جس کی مرکزی قیادت اس وقت نوازشریف کی کشتی کو مکمل سہارا دیے ہوئے ہے ان حکومتوں کی وجہ سے نواز شریف کو اتنی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا جتنا صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت سے ہے جو مرکزی حکومت کی مخالف ترین جماعت ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومتیں خاص طور پر تحریک انصاف کی صو بائی حکومت پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے اعلان کا فائدہ عوام تک پہنچانے میں کتنی مخلص ہے جو کہ سیکٹریز آر ٹی اور ٹرانسپورٹ کو لگا م دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا ہے دوسرا اس کا ڈائریکٹ کریڈٹ مسلم لیگ کی مرکزی حکومت کو جائے گا اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کبھی بھی یہ کریڈٹ دینا پسند نہیں کرے گی اسکی تازہ مثال پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ پہلی کمی کے بعد ابھی تک پورے صوبے میں کہیں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی واقع نہیں ہو سکی ما سو ائے میڈیا بیا نا ت ،سیکٹر یز کے چا لا نا ت کے صوبائی حکومت اور نہ ہی کوئی ضلعی حکومت پبلک ٹرانسپورٹ کو کرایوں میں کمی پر مجبور کر سکی جبکہ تذبذب کا شکار معاملہ جوں کا توں ہے۔
عوام جب ٹرانسپورٹر سے کرائے میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایک ہی جواب گاڑی تو سی این جی پر چل رہی ہے اور قیمتیں پٹرول اور ڈیزل کی کم ہوئی ہیں دے کر مسافروں کو خاموش کر دیا جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے یا تو مسافر و ٹر انسپورٹر گتھم گتھا ہو تے ہیں یا عوام دل ہی دل میں وزیر اعظم نواز شریف کو کوسنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں اگر فائدہ پہنچانا ہی تھا تو سی این جی قیمتیں کم کرتا، قارئین کرام اس وقت مال بردار گاڑیوں میں ٹریلر ،ٹرک اور ٹریکٹر چل رہے ہیں جن کی وجہ سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں کو ئی خاص فرق پڑ ھا ہے اگرچہ سبزیوں فروٹ اور دیگر اشیاء کی قیمتیں دس تا پندرہ فیصد تک کم ہو چکی ہیں مگر دوسری جانب مسافروں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی تقریباً سو فیصدگاڑیاں بسیں ،ویگنیں،ٹیو ٹااورسوزوکی وغیرہ سب کی سب سی این جی پر چل رہی ہیں جو عوام کے لیے درد سر بن چکی ہیں اور کرایوں میں کمی کرنے کو بالکل تیار نہیں۔
حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے انہی سی این جی گاڑیوں کے مالکان پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر اپنے کرائے بڑھاتے آ رہے ہیں مگر جب بھی پٹرول یا ڈیزل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو یہی ٹرانسپورٹر کرایہ میں کمی نہیں کرتے الٹا سی این جی کا بہانہ تراش لیتے ہیں اور یہ سب کچھ صوبہ خیبر پختونخوا اورخصوصاً ہزارہ ڈویژن کے عوام برداشت کر رہے ہیں جس کی اصل وجہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پوری صوبائی حکومت کو دھرنوں کی سیاست میں دھکیل دیا ہے صوبہ خیبر پختونخوا ہ کے وزیر اعلیٰ سے لیکر صوبائی وزرائ،ایم پی ایز،اور پارٹی ورکرزتک تمام لوگ عوامی توقعات اور عوام کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کو پائوں تلے روندتے ہوئے بجائے پشاور میں بیٹھ کر عوامی مسائل کے حل کے لیے سوچ بچار کرتے اسلام آباد کی سڑکوں اور ملک کے دیگر صوبوں میں دھرنے اور جلوسوں کی رونق کو دوبالا کر نے پر مامور ہیں کسی کو عوام کی کوئی فکر نہیں اور نہ ہی انھیں یہ پتہ ہے کہ ہمیں کس مقصد کے لیے عوام نے اسمبلی تک پہنچایا ہے خیبر پختونخوا کے بد قسمت عوام کا گزشتہ سال کے ترقیاتی و دیگر فنڈزسمیت انتہائی غریب عوام جو صرف زکوٰة کی معمولی رقم پر گزر بسر کرتے ہیں ان کے لیے بھی آنے والا فنڈعوامی نمائندوں کی نا اہلی کی نظر ہو چکا ہے۔
جبکہ پورے صوبے میں ہسپتالوں کی حالت زار کو اگر دیکھاجائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے شروع میں خیبر پختونخوا کی صحت کی وزارت شوکت یوسف زئی جیسے فرشتہ صفت انسان کے سپرد کی گئی تھی جنھوں نے صحیح معنوں میں اس کرپٹ ترین ادارے کو سدھارنے کے لیے اپنا دن رات ایک کیا اور صوبہ خیبر پختونخوا کے ہر ہسپتال کا اچانک وزٹ کر کے کام چور اور کرپٹ سٹاف کے خلاف بھر پور کاروائیاں کرتے ہوئے عوام کو ریلیف مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کیا مگر انکی فرض شناسی صوبائی حکومت کے کرتا دھرتائوں کو ایک آنکھ نہ بہائی اور ان سے وزارت چھین کر عوام کو ایک مرتبہ پھر اسی کرپٹ ترین سٹاف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا صوبے میں گزشتہ دور میں تعمیر کیے جانے والے سینکڑوںسکول اس وقت سٹاف کے انتظار میں بھوت بنگلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
تاحال محکمہ تعلیم ان سکولوں کو ہینڈ اوور نہ کر سکا اگر صوبائی حکومت ان سکولوں میں سٹاف کی کمی کو دور کر دے تو نہ صرف علاقے کے بچوں کو دہلیز پر تعلیم میسر ہو گی بلکہ ان علاقوں کے سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کونوکریاں بھی مل جائیں گی مگر ایسے کام اس وقت ہوتے ہیں جب اس قسم کی سوچ رکھنے والے نمائندے سامنے آئیں گے اگر یہی حال رہا تو یہی عوام تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے لیے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں انصاف ترازو اپنے ہاتھ میں لے کر انصاف کرنا بھی جانتے ہیں عمران خان کو چاہیے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کو دھرنوں کی سیاست سے دور رکھیں اور ان عوامی نمائندوں کو عوام کی خدمت کا موقع دیں جس کے لیے ان لوگوں کو منتخب کیا گیا تھا دھر نے احتجا ج ملک و قو م کے لیے نقصا ن دے ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان