تحریر: مسز جمشید خاکوانی
مثل مشہور ہے کہ بھوکے پیٹ چاند بھی گول روٹی کی صورت نظر آتا ہے ،وہ کیا کہتے ہیں کہ” ڈھڈ وچ نہ ہوون روٹیاں تاں سبھے گلاں کھوٹیاں ”جب سے نائن زیرو پر چھاپہ پڑا ہے مختلف انداز سے اس پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ مختلف قلم کاروں کی نگارشات بھی نظر سے گذریں ہر ایک نے اپنے اپنے قلم کا حق ادا کیا اور بعض نے اپنے انداز میں حق نمک ادا کرنے کی کوشش بھی کی کچھ نے اپنے آپ کو بہت عقلمند اور intellectualظاہر کرنے کے لیئے اندر کی باتیں بھی نکالیں جو کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ”خاص لوگوں ” سے پہلے ہی ”عام لوگوں ” تک پہنچ چکی ہوتی ہیں ۔ہر ایک کی رائے سر آنکھوں پر لیکن جو چیز ہم نظر انداز کر رہے ہیں وہی نظروں سے اوجھل کرنے کی نادانستہ کوششیں کی جاتی ہیں کہ نظریہ پاکستان کو لسانی و علاقائی تقسیم کی وجہ سے نقصان پہنچا بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اردو کو رائج کرنے کے جرم میں بنگالیوں نے بغاوت کی ۔اگر ہر ایک کو اپنی زبان کی آزادی دی جاتی تو بنگلہ دیش وجود میں نہ آتا۔میں سمجھتی ہوں یہ ایک بالکل الگ مسلہء ہے۔اگر تقسیم یا تعصب لسانی بنیاد پر ہوا کرتے تو پھر یہ تجارت بھی نہ ہوتی نہ کوئی فضل ربی تلاش کرنے ایک سے دوسری جگہ جاتا۔لوگ صرف وہیں پڑے رہتے جہاں ان کی زبان بولنے والے ہوتے میرے خیال میں تو زبان لوگوں کو قریب لاتی ہے کسی اجنبی دیار میں کوئی ہم زبان مل جائے تو کتنی خوشی ہوتی ہے کوئی یہ نہیں پوچھتا تم کس قومیت کے ہو بس یہی غنیمت لگتا ہے کہ اپنی بات کرنے یا سننے کو کوئی ہم زباں میسر آیا ۔پورے ملک میں ایک زبان رائج ہوتی تو آج یہ تقسیم در تقسیم بھی نہ ہوتی ۔اگر انگلش بولنا قابل فخر ہو سکتا ہے تو اردو کیوں نہیں ؟اس لیئے میں اس کو مسترد کرتی ہوں کہ لسانی بنیادوں پر ہم تقسیم ہو رہے ہیں۔
ہاں ! کسی بھی خطے کی آب و ہوا اور رہن سہن ضرور لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے جن سے انکی شکلیں پہچانی جاتی ہیں ۔ان شکلوں کو صرف ایک چیز الگ کرتی ہے بھوک یا تونگری کی چھاپ ۔۔۔۔۔۔ جب بھٹو کی سیاست نے جنم نہیں لیا تھا تو ملک میں دو طبقات تھے” خوشحال طبقہ اور راضی بہ رضا طبقہ” بھٹو نے سیاست کو دوام دینے کے لیئے ایک اور طبقہ پیدا کیا یہ جیئے بھٹو کے نعرے اس لیئے لگاتے تھے کہ انہیں” روٹی کپڑا مکان ”کی آس دلائی گئی ۔کچھ تیسری دنیا کو سدھارے اور وہاں سے واپسی پر لائئے جانے والے سامان تعیش نے باقیوں کا بھی صبر چھین لیا یہ پہلی دراڑ تھی جو لوگوں کو تقسیم کر گئی ۔دیکھا جائے تو سیاست دانوں نے اپنے مفاد کی خاطر ملکی سالمیت کو دائو پر لگایا جو بھی آیا اس نے اسی فلسفے پر کام کیا لوگوں کو تقسیم کرو اور حکومت کرو ۔حتی کہ فوجی حکومتیں بھی اسی فلسفے کی زد میں آ کر بلیک میل ہوتی رہیں ان کو بھی یہ خیال آ جاتا کہ غالب طبقے کو اکثریت دلائو جو کہ ایاز امیر صاحب کے مطابق بنگلہ دیش بننے کے بعد پنجابیوں کی بالا دستی کی صورت میں تھا یہ دوسری دراڑ تھی جو قومیت کی سوچ میں بدلی ۔کبھی کبھی ہم دور کی سوچ میں قریب کی بات نظر انداز کر دیتے ہیں ۔میں ایک بار پھر دہراتی ہوں ،پہلے لوگ گلی کوچوں ، محلوں کی صورت میں رہا کرتے تھے بڑے بڑے گھروں میں کئی کئی خاندان اکھٹے رہتے ،امیر لوگ غریبوں کا خیال رکھتے تھے تو غریب امیروں کو اپنے لیئے سایہء عاطفت سمجھتے تھے ۔کسی کو روٹی کی تنگی نہ تھی کھانا کھلانا ثواب سمجھا جاتا اور پیٹ بھرنے کے بعد کوئی خود کو غریب نہ سمجھتا ۔یہی اصل فلسفہ حیات تھا کہ پیٹ بھرا ہو تو دین ،مذہب ،ملک ملت سبھی اچھے لگتے ہیں تب نظریہ پاکستان کی حفاظت کی جاتی تھی پاکستانیت اپنے عروج پر تھی ۔ادب بھی تخلیق ہوتا تھا حسن ،عشق ،محبت رواداری کا ادب ،ایوب خان کا دیا نہری نظام اور تربیلا ،منگلا ڈیم ہماری ترقی کو دنیا کی نظر میں معتبر بنا رہا تھا ۔اور پھر بھٹو کی صورت میں ہمیں نظر لگ گئی۔
بھاری پتھر جب اپنی جگہ سے لڑھکتا ہے تو پھر اتھاہ گہرائیاں ہی اس کا مقدر بنتی ہیں ۔ہمیں ذلت اور تقسیم در تقسیم کی پاتال میں اتارنے والے یہی سیاست دان ہیں جنھوں نے اپنی بقا کے لیئے قوم کو تقسیم در تقسیم کیا اور خود مفاہمت کی ڈور میں بندھے عیش کرتے رہے ستم ظریفی یہ ہے کہ قوم ابھی تک ان کے جال سے باہر نہیں آئی ۔یہ ہر بار نام بدل بدل کرنیا نعرہ لے کر آتے ہیں اور ذلت اور بد حالی کا ایک اور دروازہ کھول جاتے ہیں جب جب ان کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی انہوں نے ملک سے بھاگ کر اپنی جان اور سیاست بچا لی اور موقع ملنے پر دوبارہ صف آرا ہو گئے ۔جمہوریت کا راگ الاپ کر لوگوں کو بے وقوف بنایا اور اس کی آڑ میں بد ترین آمریت قائم کی ۔میوزک چیئر کا یہ کھیل چلتا رہتا اگر عمران خان کی اینٹری نہ ہوتی وہ ایک سچا آدمی جو سیاست کے مروجہ اصولوں پر پورا نہیں اترتا لیکن سچائی بذات خود ایک طاقت ہے جو اپنا آپ منوا کر رہتی ہے ۔گو اس منحوس سیاست کی وجہ سے وہ سچا آدمی بھی کوئلوں کی دلالی پر مجبور ہے لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ منافقت کی سیاست کے بت ٹوٹ گئے ہیں لوگوں میں شعور بیدار ہونے لگا ہے اس کا کریڈٹ میڈیا کو بھی جاتا ہے جس کی پہنچ نے ان گھنائونے کرداروں کو بے نقاب کیا بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ج کی دنیا وہ پہلے والی دنیا نہیں ہے جو ان سیاسی دیوتائوں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل رہی تھی ۔یہ جس کو چاہتے مروا دیتے ،جس پہ ہاتھ رکھتے خرید لیتے ،جس پہلو سے سے چاہتے بلیک میل کرتے اب یہ ہزار بار سوچیں گے کہ قوم اب وقوف بننے کو تیار نہیں ہر شخص آخر میں یہ ضرور کہتا یا لکھتا ہے کہ اب کہ جرم کا خاتمہ ضرور ہو گا ۔یہی قانون قدرت ہے کہ اتنا سب کچھ گنوانے کے بعد اللہ کی لاٹھی حرکت میں آ چکی ہے اب کوئی ”بھائی ہو یا بھاری ” سب کی آ چکی ہے باری۔
اتنی قربانیاں دے کر بھی ہم ایک بار پھر اسی جرائم پیشہ سیاست کی نظر ہو گئے تو؟ میں اس سے آگے سوچنا بھی نہیں چاہتی سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ اب ہمیں صرف وہ نظریہ ضرورت اپنانا ہے جو ملکی سا لمیت کے لیئے ضروری ہے یہ جو بھائی کو بچانے کے لیئے اردو سپیکنگ کی بین بجائی جا رہی ہے ان سے گذارش ہے اس سے احتراض کریں بات علاقوں یا قومیت کی آتی ہے تو پھر سرائیکیوں سے زیادہ دکھ کسی نے نہیں اٹھائے جن پر تعلیم ، روزگار ، عزت احترام ہر شئے کے دروازے بند ہیں۔ پھر بھی وہ ملک سے باغی نہیں ہوئے نہ اپنی سپاہ کی عزت کرنا چھوڑی ہے حالانکہ بھوکے پیٹوں کو نظریات نہیں صرف روٹی چاہیئے ہوتی ہے ۔زراعت تباہ کرنے اور سود کا کاروبار شروع ہونے کے بعد سرائیکیوں کی ایک کثیر تعداد نے کراچی اور کوئٹہ کا رخ کیا ۔جنوبی پنجاب میں کئی لوگ سود کا کاروبار کر کے وسیع جائیدادوں کے مالک بن گئے ہیں تو کئی چھوٹے زمیندار اور کاشتکار سود میں اپنی جائیدادیں گنوا کر برباد ہو چکے ہیں ۔پنجابی کہہ کر جن کو مارا گیا وہ بھی سرائیکی تھے مظفر گڑھ ،ملتان،رحیم یارخان ،بہاولپور،راجن پور کتنے گھروں میں روزانہ لاشیں آتی رہی ہیں مجھ سے اکثر لوگ شکایت کرتے تھے کہ آپ لکھنے والی ہیں کیوں آواز نہیں اٹھاتیں کہ بسوں سے اتار اتار کر جن کو مارا جا رہا ہے وہ پنجابی نہیں ہمارے سرائیکی ہیں جو بھوک کے مارے روزگار حاصل کرنے کراچی یا کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں تو یا ”بھائی لوگوں ” کے ”دھندوں ” میں پھنس جاتے ہیں ۔یا کوئی روزگار سے لگ بھی جاتا ہے تو پنجابی سمجھ کے مارا جاتا ہے کیا ان جانوں کی کوئی قیمت نہیں ؟اب میں ان کو کیا کہتی کہ ہم سرائیکیوں کا چھپنا بھی کاروارد ہوتا ہے ایک کالم چھپوانے کے لیئے کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا ہے تب تک اس بات کی اہمیت ہی نہیں رہتی لیکن میں اپنے ہی فلسفہ محبت کی وجہ سے گلہ بھی نہیں کرتی کہ ہر ایک کو پاکستانیت کا درس دینے والی اس تقسیم اور تعصب کو موضوع کیسے بنائوں سو میں اپنے لیئے غدار کے طعنے بھی سہہ گئی ۔اور اللہ کے انصاف کا انتظار کرتی رہی ۔شائد بیس سال پہلے یہ لسانی اور علاقائی تقسیم بہت اہم خیال کی جاتی ہو اب فلسفہء حیات بدل چکا ہے اب لوگ صرف یہ سوچتے ہیں کہ کاروبار حیات قائم رکھنے کے لیئے کیا کرنا ہے اپنی جان دینی ہے ؟یا دوسرے کی جان لینی ہے ؟قتل و غارت سے بھی بڑی دھشت گردی لوگوں کا معاشی قتل ہے۔ معاش نہ ہو تو آپ ان سے جو مرضی جرم کروا لو کیا یہ حکمران مجرم نہیں ؟جنھوں نے ملک کو ہر طرح سے لوٹا اور انصاف بھی نہ دیا ،انصاف اور معاش کے دروازے بند کر کے ملک کو کھلی دہشت گردی کی راہ پہ ڈال دیا گیا اس میں تمام سیاستدان برابر کے شریک ہیں ایسے میں بے رحم اور مصلحتوں سے پاک احتساب ضروری ہے۔
تحریر: مسز جمشید خاکوانی