تحریر : زکیر احمد بھٹی
ایک وقت تھا جب میرے آس پاس رونق ہی رونق تھی مجھے نہیں پتہ کہ جو لوگ میرے ساتھ ہیں میں ان میں سے کتنے لوگوں کو جانتا ہوں مگر میں جہاں بھی جاتا ملنے والوں کی ایک لائن بن جاتی تھی مگر میری سوچ مجھے مجبور کرتی تھی کہ آخر یہ لوگ کون ہے جو میرے ساتھ ہیں کیا وجہ ہے جو یہ لوگ میرے ساتھ ہے مگر اتنا کچھ سوچنے کے باوجود بھی میری سوچ میں کچھ نہ آتا تھا مگر ایک سوچ تھی جو مجھے اس بارے سوچنے پر مجبور کرتی تھی وقت کی سوئی چلتی رہی اور میرے ساتھ لوگ ملتے گئے اور یہ تو قدرت کا قانون بھی ہے کہ ہر انسان پر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔
کبھی کبھی ہماری غلطیاں ہی ہمارے سامنے ہوتی ہے ایک وقت ایک عرصہ گزر گیا اور پھر میری زندگی میں بھی وہ وقت آ گیا جس کا میں نے سوچا بھی نہ تھا میری کچھ غلطیوں کی وجہ سے وقت کی گھڑی میرے سے الگ ہونا شروع ہو گئی اور مجھے محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ یہ وقت کی گھڑی کی سوئیاں روک گئی ہے میری زندگی میں وہ ٹائم بھی آ گیا ہے جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا زندگی میں ہر خوشی چاہے کوئی بھی ہو آخر بتا کر آتی ہے۔
انسان کی زندگی میں آج جو بھی خوشی ہے وہ انسان کو پہلے ہی بتا کر آتی ہے پھر انسان اس خوشی کی آمد پر بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لیتا ہے انسان ان خوشیوں میں اکثر اوقات تو اپنوں کو بھی بھول جاتا ہے مگر افسوس کہ یہ انسان کی بھول ہوتی ہے کہ خوشیاں ہمیشہ اس کے پاس رہنگی دوسرا طرف دیکھا جائے تو پریشانی جو بھی ہو کوئی بھی ہو جیسی بھی ہو مگر کبھی بھی آپ کو بتا کر نہیں آتی ہمیشہ آپ کے سامنے آ کر لہراتی ہے جب آپ کے سر پر پریشانی لہراتی ہے تو پھر اچانک پریشانی دیکھ کر کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔
پریشانی کیا ہے پریشانی سے زیادہ آپ کو اپنے ہی بتا دیتے ہے کہ پریشانی کس چیز کا نام ہے ہمیشہ خوشیوں میں غیر بھی اپنے ہوتے ہے جیسا میرا ساتھ ہوا تھا میری زندگی میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کو میں نہیں جانتا تھا مگر وہ لوگ میرے ساتھ نہیں میری دولت میری خوشحال زندگی کے ساتھ تھے اور میں پاگل یہی سمجھتا رہے کہ یہ لوگ میرے ساتھ ہیں اور جب پریشانی آپ کے سر پر آپ کے گھر کی دہلیز پر آتی ہے تو ایسے لوگ جو آپ کی خوشیوں آپ کی خوشحالی پر آپ کے ساتھ تھے سب سے پہلے وہی لوگ پریشانی کے آنے پر آپ سے الگ ہوتے ہے اور پھر آپ کو اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کون اپنا ہے اور کون پریا ہے۔ دکھ کی سلطنت کو جب بھی پیچھے مڑ کے دیکھا تو اس کے شھنشاہ کچھ اپنے ہی احباب نکلے۔
پھر تو سمجھ بھی نہیں اھتی کہ شور کروں واویلہ کروں۔ کہ سر پیٹوں کچھ سمجھ نہیں آتی۔ خیر زندگی اسی چیز کا نام ہے کبھی دکھوں کی دہلیز پہ ٹکریں مارتی ہے اور کبھی سکھوں کے چونترے پہ بٹھا دیتی ہے۔معاشرہ بالعموم تو مل جل کر ایک دوسرے پر انحصار کرے زندگی گزارنے کا نام ہے لیکن اب کے تو معاشرے کی تعریف ہی بدلی پڑی ہے کہ جہاں دیکھوغیبت، حسد ، جلن،چاپلوسی،اور عجیب نفسا نفسی کا عالم ہے ہر بندہ دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگیں کھینچ کے خود کو آگے لانے کی کوشش میں ہے۔
بحرحال بندے کو دنیا تما م دکھوں اور پریشانیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ہر وقت خالق کل اللہ رب العزت کو یاد رکھنا چاہیے اور اس کا شکر ادا کر نا چاہیے۔ اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ خود ہی تو فرماتا ہے کہ اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ عطا کروں اور جو بندہ بھی مجھ پر توکل کرتا ہے تو میں اس کے لیے کافی ہوں۔ہمیں ہر حال میں شکرو توکل کا معاشرہ ترتیب دینا چاہیے چاہیے تاکہ غم ِ جاناں اور غمِ دنیا اور غمِ معاش کے وبال سے بچا جا سکے۔
تحریر : زکیر احمد بھٹی