تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
محبوب خدا سرتاج الانبیاء کا فرمان ہے کہ ”ہم گروہ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں” حضرت ابراہیم خالق ارض و سماء کے جلیل القدر پیغمبر تھے آپ کا مقام و مرتبہ جتنا بڑا تھا آپ پر اللہ تعالیٰ کی آزمائشیں بھی بہت کڑی تھیں۔
آپ کی پیدائش ایک بت پرست گھرانے میں ہوئی لیکن شروع سے ہی حضرت ابراہیم کو مالک کائنات نے رشد وہدایت کی نعمت سے نوازا تھا آپ کی پہلی آزمائش تو آپ کا والد تھا جو بت پرست ہونے کے ساتھ ساتھ بت تراش بھی تھا لہذا حضرت ابراہیم نے پہلی دعوت اپنے والد کو دی جو والد نے سختی سے رد کر دی اور گھر سے نکال دیا آپ نے دوسری دعوت حق اپنی قوم کو دی انہوں نے بھی سختی سے انکار کردیا’ ظالم بادشاہ نے اپنے دربار بلایا تو آپ نے وہاں بھی حق کی آواز کو بلند کیا اور توحید پرستی کی دعوت دی’۔
بادشاہ کا مزاج برہم ہوا’ گستاخی کی سزا یہ ٹھہری کہ آپ کو آگ کے بڑے آلائو میں ڈال دیا جائے ‘آپ کو آگ میں ڈالا گیا لیکن آپ نے خدا کے دامن اور حق پرستی کو نہ چھوڑا ‘اسی سال کی عمر میں خدا کے حکم پر خود ہی اپنے ختنے کر ڈالے ‘اپنا سارا مال و دولت مہمان نوازی اور خدا کی راہ میں خرچ کردیا ‘اپنی قوم سے مایوس ہو کر اپنا پیارا وطن چھوڑ کر سر زمین فلسطین میں آباد ہوئے پھر بڑھاپے میں 86 برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطاء کیا جس کا نام حضرت اسماعیل رکھا گیا اب ایک اور کڑا امتحان منتظر تھا اللہ کے حکم پر بڑھاپے کی پونجی حضرت اسماعیل اور بیوی کو اپنے سے دور فاران خاران کے بیابانوں میں چھوڑ آئے’ درج بالا تمام آزمائشوں سے حضرت ابراہیم سرخرو ہوئے ‘اب ایک اور بڑی آزمائش کی تیاری تھی۔
حضرت ابراہیم تین مسلسل شب سے یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری راہ اپنی محبوب ترین شے اپنے بیٹے کی قربانی دے۔ حضرت ابراہیم اچھی طرح جانتے تھے ان کی محبوب ترین شے بڑھاپے کی اکلوتی اولاد ان کا بیٹا اسماعیل ہے چونکہ انبیاء کا خواب وحی الٰہی اور حکم الٰہی ہوتا ہے جو کبھی بھی غلط یا جھوٹا نہیں ہو سکتا اس لئے حضرت ابراہیم بھی ہمیشہ کی طرح تسلیم و رضا کے پیکر بن گئے پہلے تو ہر بار ذات اپنی ہوتی تھی لیکن اس بار آزمائش کا دوسرا جُز بیٹا تھا جس کی قربانی کا حکم دیا گیا اس لئے آپ نے بہتر سمجھا کہ اپنے بیٹے کو تمام بات بتائی جائے پھر اپنا خواب اپنے بیٹے کو سنایا تاکہ وہ بھی رضا مند ہو جائے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا میرے پیارے بیٹے میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا تیری رائے اور مرضی کیا ہے۔ فرماں بردار بیٹے نے خدا کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشاء اللہ آپ مجھے صابر اور فرماں بردار پائیں گے اس گفتگو کے بعد بیٹا قربان ہونے اور باپ اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کیلئے جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔
باپ نے بیٹے کی مرضی کے بعد چھری کو تیز کیا۔ بیٹے کو مذبوح جانور کی طرح ہاتھ پیروں سے باندھ دیا پھر حضرت ابراہیم نے گدی کی طرف سے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ بوقت ذبح وہ اپنے محبوب بیٹے کا چہرہ نہ دیکھ سکیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بیٹے کو عام جانوروں کی طرح پہلو کے بل لٹایا تھا اور اس کی پیشانی ایک جانب سے زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھی’ مفسرین کا کہنا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے بیٹے کے حلق پر چھری چلا دی اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں بھی سرخرو ہوگئے لیکن چھری چلانے سے کچھ بھی نہ کٹا تو اس وقت خالق کائنات کی طرف سے آواز آئی’ اے ابراہیم یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی ہم آپ کی جو جو آزمائش کرنا چاہتے تھے وہ مکمل ہو چکی ‘حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کی ہر آزمائش میں ثابت قدم اور کامیاب نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یقیناً یہ کھلا امتحان تھا اور فرمایا ہم نے ایک بڑا ذبحہ اس کے فدیہ میں دیدیا۔
اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو اپنے محبوب بیٹے کے بدلے میں ذبح کر ‘ہم نیکو کاروں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور نوازشوں سے نوازتے ہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیم نے حکم خداوندی کی تعمیل کی اور اس مینڈھے کو ذبح کیا۔رب ذوالجلال کو حضرت اسماعیل کی فرماں برداری اور حضرت ابراہیم کی یہ عظیم قربانی ادا اور عبادت اتنی پسند آئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ کیلئے ملت ابراہیم کا شعار قرار پائی اور آج بھی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو تمام دنیا اسلام میں یہ قربانی اور شعار اسی طرح منایا جاتا ہے۔ قربانی، قربان، قربت اور قرب تمام مترادف الفاظ ہیں جس کا مطلب ہے کسی کے نزدیک ہونے کی کوشش، کسی کو راضی کرنا اور کسی کی توجہ چاہنا کوئی ایسی عبادت الفاظ یا کام کرنا جن سے کسی کی توجہ حاصل کی جا سکے یا کسی کے قریب ہوا جا سکے جس دن سے حضرت انسان کرہ ارض پر آباد ہوا ہے اسی دن سے یہی قربانی کا تصور بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر ملتا ہے ‘فلسفہ قربانی اللہ تعالیٰ کی رضا اور حصول تقویٰ ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے اللہ کی بارگاہ میں قربانی کے جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عنایات پر اظہار تشکر کے طور پر اپنے حلال مال میں سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے اللہ کی راہ میں قربانی کرنا، قربانی کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ امام ترمذی اماں جی عائشہ سے ایک روایت فرماتے ہیں کہ شہنشائے دو عالم ‘محبوب خدا ‘شافع محشر ‘ساقی کوثر نے فرمایا کہ ”قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انسان کا کوئی عمل خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے’ قربانی کا جانور قیامت کے دن نیکیوں کے پلڑے میں اپنے سینگوں، بالوں، کھروں اور رگ و ریشہ سمیت آپ کا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بار گاہ میں قبول ہو جاتا ہے۔
قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ کا حصول اور محبوب کو راضی کرنے کی کوشش ہے اگر تو ہم اسی جذبے اور شوق سے قربانی کریں گے تو یقیناً بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی سند پائے گی اور اگر ہم بڑے جانور لوگوں پر اپنا رعب ڈالنے کیلئے معاشرے کو اپنی دولت کی نمائش کرنے کیلئے کریں گے تو ہم روز محشر قربانی کے ثواب سے محروم رہیں گے۔ فلسفہ قربانی یہ بھی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی رضا کیلئے ہر کام کرجانا اپنی قیمتی سے قیمتی شے کو ایک لمحے سے بھی پہلے اس کے حضور قربان کر دینا قربانی کا مقصد رب ذوالجلال کو راضی کرنا ہے اس کی اطاعت کرنا ہے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے نہ کہ دنیاوی شان و شوکت کہ لوگوں پر اپنی دولت کا رعب ڈالا جا سکے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956