counter easy hit

پی آئی اے اور کالے بکروں کا صدقہ

نوے کی دہائی میں جب صدر کے پاس آئین کی آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت منتخب حکومت کو توڑنے اور اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے اختیارات تھے تو دو اڑھائی سال بعد منتخب حکومتوں کو گھر بھیج دیا جاتا تھا۔ بے نظیر حکومت جو 1988ء کے آخر میں منتخب ہو کر آئی تھی اسے اٹھارہ ماہ کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور آئین کے مطابق حکومت نہ چلانے کے الزام میں برطرف کر دیا تھا۔ نواز شریف حکومت 1990ء میں منتخب ہو کر آئی تھی اسے اپریل 1993ء میں ڈس مس کر دیا گیا تھا۔ 1993ء کے آخر میں ایک مرتبہ پی پی پی نے منتخب ہو کر حکومت بنائی اس حکومت کو صدر فاروق خان لغاری جنہیں پیپلز پارٹی نے ہی صدر منتخب کیا تھا۔ آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت 1996ء میں گھر بھیج دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ وزرائے اعظم حکومتیں بچانے کے لئے جہاں فوج اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے وہاں وہ پیروں فقیروں کے آستانوں پر بھی حاضری دیتے تھے۔ اس زمانے میں مانسہرہ کے قریب مقیم پیر دھنکہ شریف کا بڑا چرچا تھا۔ پیر آف دھنکہ کے پاس بے نظیر بھٹو‘ عبوری وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی اور شاید نواز شریف نے بھی حاضری دی۔ اس زمانے میں اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق پیر صاحب دھنکہ شریف کے آستانے پر حاضری دینے والے وزیراعظم کی پیٹھ پر چھڑی مارتے تھے جس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ پیر صاحب نے ان کو اپنی آشیرباد دے دی ہے اور ان کی حکومت کے لئے خطرہ ٹل گیا ہے۔ یہ بڑا دلچسپ زمانہ تھااس زمانے میں حکومت کے خاتمے کی تاریخیں قبل ازوقت اخبارات میں شائع ہونا شروع ہو جاتی تھیں۔ کئی نجومی اور پہنچے ہوئے بزرگ حکومت کے خاتمے کی تاریخیں بڑے وثوق کے ساتھ بتا دیتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جن قوتوں نے حکومتوں کو گھر بھیجنا ہوتا تھا وہ ان کے خاتمے کے لئے عوام کو ذہنی طورپر تیار کرنے کے لئے ’’نجومیوں‘‘ اور باخبر صحافیوں کے ذریعہ تاریخیں دینا شروع کر دیتی تھیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے تو اپنے پیر اعجاز ہاشمی کو ایوان صدر میں قیام کی سہولتیں دے رکھی تھیں اور وہ اکثر یہ پیشنگوئیاں کرتے رہتے تھے کہ صدر زرداری اپنی مدت پوری کریں گے۔ اس زمانے میں یہ خبریں آتی تھیں کہ ایوان صدر میں روزانہ کالے بکروں کا صدقہ دیا جاتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جس ملک میں جمہوری نظام آئین اور قانون کے مطابق نہ چل رہا ہو‘ جمہوری ادارے مضبوط نہ ہوں اور جہاں ان کے سر پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہے ان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کا اقتدار کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے وہاں جادو ٹونے اور صدقوں سے نظام بچانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جہاں جمہوری نظام مستحکم ہے‘ آئین کے مطابق چل رہا ہے‘ جہاں جمہوری روایات اور اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے وہاں حکومتوں اور اسمبلیوں کو بچانے کے لئے پیروں فقیروں کے پاس جانے یا تعویز گنڈہ کے ذریعہ اقتدار کو محفوظ بنانے کی کوششیں نہیں کی جاتیں وہاں سیاسی نظام بھی ایک قاعدے اور اصول کے تحت چلایا جاتا ہے البتہ جہاں مسند اقتدار میوزیکل چیئر بن جائے وہاں انہونی باتیں ہونے لگتی ہیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ پی آئی اے نے اندرون ملک اپنی اے ٹی آر طیارے کی اسلام آباد ائرپورٹ سے پرواز سے قبل کالے بکرے کا صدقہ دیا ہے تاکہ پرواز خیریت سے منزل پر پہنچ جائے۔ پی آئی اے کی حالت اب یہاں تک جا پہنچی ہے کہ پروازوں کو خیریت سے منزل مقصود پر پہنچانے کے لئے کالے بکروں کے صدقے دیئے جانے کی روایت ڈالی جا رہی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قومی ائرلائن میں پروازوں کی سیفٹی کو یقینی بنانے کا طریقہ قابل اعتماد نہیں رہا۔ سات دسمبر کی شام کو چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز کو جو حادثہ پیش آیا اس کے بعد تو ہر روز پی آئی اے کے طیاروں کی ہنگامی لینڈنگ‘ روانگی میں تاخیر اور پائلٹوں کی طرف سے طیارے اڑانے سے انکار کی اطلاعات آنے لگی ہیں۔ پی آئی اے کے چیئرمین اعظم سہگل استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے ہیں۔ دنیا بھر کی ائرلائنز کو حادثات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ائرلائنز ان حادثات کی تحقیقات کے بعد ان وجوہ کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جن کی وجہ سے حادثہ ہوا ہوتا ہے۔ پی آئی اے بھی ایک دور میں انتہائی قابل اعتماد ائرلائن تھی اور اس کا سیفٹی کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے پی آئی اے دوسرے قومی اداروں کی طرح زوال کا شکار ہے۔ بدعنوانی اور بدانتظامی نے ہماری قومی ائرلائن کی ساکھ تباہ کر دی ہے۔ پی آئی اے سے کئی منافع بخش روٹس دوسری ائرلائنوں نے چھین لئے ہیں۔ دنیا میں اس وقت کئی ائرلائنز ایسی ہیں جن کا سیفٹی ریکارڈ قابل رشک ہے۔ ان ائرلائنوں میں دو ایسی ائرلائنز بھی شامل ہیں جنہیں پی آئی اے کے سابق انجینئروں اور ٹیکنیشنز نے کھڑا کرنے میں کردار ادا کیا۔ میرا اشارہ ایمریٹس ائرلائن اور اتحاد ائر لائن کی طرف ہے یہ دونوں ائرلائنز اس وقت دنیا کی ان بیس ائرلائنز میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ ترین ائرلائنز سمجھا جاتا ہے۔ محفوظ ترین ائرلائنوں میں کانٹاس‘ ائرنیوزی لینڈ‘ الاسکا ائر لائن‘ جاپان کی آل نیپان ائر لائن‘ امریکن ائرلائن‘ کیتھی پیسفیک‘ ایمریٹس ائرلائن اور اتحاد ائر لائن شامل ہیں۔ پی آئی اے کے منتظمین اور حکومت کو اس قومی ائرلائن کو فضائی سفر کے اعتبار سے محفوظ بنانے کے لئے سائنسی انداز اختیار کرنا چاہئے۔ طیاروں کو محفوظ بنانے کے لئے جو بین الاقوامی معیار اور طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ کالے بکرے کا صدقہ دینا اچھی بات ہے۔ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے لیکن کالے بکرے کے صدقے کو سیفٹی سے متعلق ایس او پی میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website