الشفا ٹرسٹ کا قیام 1967میں عمل میں آیا۔ یہ ادارہ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں سے محروم بچوں کی بحالی کیلئے اُنہیں ٹریٹمنٹ کے ساتھ ابتدائی تعلیم بھی مفت فراہم کرتا ہے۔ اس وزٹ کی دعوت مجھے پی آئی اے کے صدر اور سی ای او ایئر مارشل ارشد محمود ملک نے دی تھی۔ الشفا ٹرسٹ کے دورے کے موقع پر اسکول کی پرنسپل نے ہمیں مختلف کلاسز کے وزٹ کرائے جہاں کوالیفائیڈ ٹیچرز ذہنی وجسمانی صلاحیتوں سے محروم بچوں کی دلجوئی کے ساتھ تربیت میں مشغول تھیں۔ میں سب سے زیادہ متاثر اس کلاس کے وزٹ پر ہوا جہاں ایک ٹیچر گٹار لئے ذہنی و جسمانی معذور بچوں کو میوزک سے روشناس کروا رہا تھا۔ ان بچوں نے ایک ملی نغمہ بھی پیش کیا۔ اس موقع پر الشفا ٹرسٹ کے توسیعی منصوبوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ میں نے ایئر مارشل ارشد ملک کو تجویز پیش کی کہ جس طرح ایک عرب ملک کی ایئرلائن فلائٹ لینڈنگ سے قبل مسافروں سے درخواست کرتی ہے کہ وہ نشست سے منسلک لفافے میں اپنے عطیات جمع کرائیں، اُسی طرح پی آئی اے بھی اِسی طرز پر یہ طریقہ اپنائے تاکہ عطیات سے حاصل ہونے والی رقوم الشفا ٹرسٹ کے توسیعی منصوبوں پر خرچ کی جا سکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ایئر لائن جو پاکستان میں اربوں روپے کا بزنس کر رہی ہے اور اُسے پاکستان سے کروڑوں کے عطیات مل رہے ہیں لیکن وہ اِن عطیات سے پاکستان میں فلاحی کام کرنے کے بجائے یہ رقوم سری لنکا اور بھارت میں فلاحی کاموں پرخرچ کررہی ہے۔
پی آئی اے کے نئے سربراہ ارشد محمود ملک کا تعلق پاک فضائیہ سے ہے اور وہ ایئر مارشل کے عہدے پر فائز ہیں۔ اُن کا شمار پاک فضائیہ کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل پیشہ ورانہ سینئر افسران میں ہوتا ہے۔ اُنہیں ایئر فورس میں اپنی ملازمت کے دوران 100سے زیادہ جے ایف 17 طیارے مختلف ممالک کو فروخت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پی آئی اے میں اُن کا انتخاب ایک انڈیپنڈنٹ بورڈ نے کیا، جس کے بعد حکومت نے اُن کی تقرری کی منظوری دی اور اُنہیں پاک فضائیہ سے ڈیپوٹیشن پر پی آئی اے بھیجا گیا۔ ایئر مارشل ارشد ملک کی ترجیحات میں شامل ہے کہ مالی خسارے کا شکار قومی ایئر لائن کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے اور ادارے کی کارکردگی وصلاحیتوں میں بہتری لائی جائے تاکہ پی آئی اے ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد حکومت کو 5سالہ بزنس پلان پیش کیا، جس میں ملازمین کی چھانٹی کئے بغیر پی آئی اے فلیٹ میں توسیع، نئے فضائی روٹس اور ریونیو میں اضافہ جیسی سفارشات شامل ہیں، جسے حکومت نے منظور کر لیا ہے۔ ایئر مارشل ارشد محمود ملک کی تقرری سے قبل قومی ایئر لائن کو ایڈہاک بنیاد چلایا جا رہا تھا، تاہم انہوں نے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی پی آئی اے میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا اور ادارے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے تمام مراعات لینے سے انکار کردیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پی آئی اے میں حکومتیں اپنی من پسند شخصیات کو اِن عہدوں پر فائز کرتی آئی تھیں، جو پی آئی اے کی تنزلی کا سبب بنی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میک اے وش پاکستان کو فلاحی کاموں میں پی آئی اے کا تعاون بھی حاصل ہے اور ایسی خواہشات جن کا تعلق پی آئی اے سے ہوتا ہے، کو قومی ایئر لائن پورا کرنے میں میک اے وش سے تعاون کرتی ہے۔ گزشتہ ماہ ایسے ہی دو بچوں کی پائلٹ بننے کی خواہش کی تکمیل پی آئی اے کے تعاون سے پوری کی گئی۔ کینسر کے مرض میں مبتلا اِن بچوں کی خواہش تھی کہ وہ پائلٹ بنیں، جنہیں پی آئی اے ہیڈ آفس میں منعقدہ تقریب میں پائلٹ یونیفارم اور ونگز لگا کر فلائٹ اسمولیٹر پر ٹریننگ دی گئی اور بہت جلد اُنہیں پی آئی اے کی فلائٹ پر بحیثیت پائلٹ فضائی سفر کرایا جائے گا۔ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا میک اے وش کی ایک 12سالہ بچی ماجدہ بصیر، جس کی خواہش ایئرہوسٹس بننے کی تھی، جب میک اے وش کے رضاکار یونیفارم لے کر خوشخبری سنانے اُس کے گھر پہنچے تو وہ ایک دن قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی، جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا۔ پاکستان میں اداروں میں کارپوریٹ سوشل ریسپونسبلٹی (سی ایس آر)نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ ادارے جو سالانہ اربوں روپے منافع ظاہر کر رہے ہیں مگر (سی ایس آر)میں بہت پیچھے ہیں۔ بھارت میں حال ہی میں ایک قانون منظور ہوا ہے جس کی رو سے ہر منافع بخش ادارے کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے منافع کا 2فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کرے، جس سے بھارت میں فلاحی کاموں میں سرگرم عمل اداروں کو بڑی مدد مل رہی ہے۔ میری پاکستان کے دوسرے اداروں سے بھی درخواست ہے کہ وہ پی آئی اے کی طرح کارپوریٹ سوشل رسپونسبلٹی (سی ایس آر)میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ حکومت سے بھی اپیل ہے کہ وہ پاکستان میں ایسا قانون متعارف کرائے، جس کے تحت ادارے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ فلاحی کاموں کیلئے مختص کریں۔ پی آئی اے کے نئے سربراہ ایئر مارشل ارشد محمود ملک کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے اُمید ہے کہ قومی ایئر لائن جو کسی ملک کی شناخت کہلاتی ہے، اُن کی قیادت میں نئے سفر پر گامزن ہوکر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے گی۔