پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوائی اڈے کے قریب ایک مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے اور اس حادثے میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق یہ ایئر بس اے 320 طیارہ ملک کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کا تھا اور لاہور سے کراچی آ رہا تھا کہ لینڈنگ سے قبل حادثے کا شکار ہو گیا۔ پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بظاہر طیارے کا لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکا لیکن حادثے کی حتمی وجہ تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکے گی۔ ترجمان نے بتایا ہے کہ پی آئی اے کی یہ پرواز پی کے 8303 دوپہر ایک بجے لاہور سے روانہ ہوئی تھی۔
بدقمست عملے کے ارکان کی فائل تصاویر:
عبدالقیوم، عاصمہ شہزادی، عرفان رفیق، مدیحہ ارم اور آمنہ عرفان
CREW MEMBER ABDUL QAUM ASMA SHAZADII. IRFAN RAFIQUE MADIHA IRAM. AMNA IRFAN
حکام کے مطابق طیارے پر 107 افراد سوار تھے جن میں عملے کے آٹھ ارکان اور 99 مسافر شامل ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق طیارہ ماڈل کالونی کے قریب ایسے علاقے میں گرا ہے جہاں انسانی آبادی موجود ہے۔
طیارہ گرنے کے بعد اس میں اور اس کی زد میں آنے والی گاڑیوں میں آگ لگ گئی۔ ٹی وی پر دکھائی دینے والی فوٹیج میں بھی جائے حادثہ سے دھوئیں کے کالے بادل اٹھتے دیکھے جا سکتے ہیں۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جائے حادثہ سے دور رہیں تاکہ امدادی کارروائیوں میں خلل پیدا نہ ہو۔
پی آئی اے طیارہ حادثے کی وجہ سامنے آگئی؟
پی آئی اے طیارہ حادثے کی وجہ سامنے آگئی؟ پائلٹ نے خرابی کی نشاندہی کر دی تھی۔۔ مزید تفصیلات جانیے ۔۔۔
Publiée par GNN sur Vendredi 22 mai 2020
کراچی: ماڈل کالونی کے قریب پی آئی اے کا طیارہ گر گیا
Publiée par GNN sur Vendredi 22 mai 2020
تاحال حکام کی جانب سے حادثے کی وجوہات اور اس سے ہونے والی جانی اور مالی نقصانات کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی ہے تاہم آبادی پر گرنے کی وجہ اس حادثے میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔خیال رہے کہ پاکستان میں کوورنا کی وبا پھیلنے کے بعد اندرونِ ملک پروازوں کا سلسلہ دو ماہ تک معطل رہنے کے بعد حال ہی میں شروع ہوا ہے۔
پاکستان میں پیش آنے والے فضائی حادثات کی تاریخ
پاکستان میں فضائی حادثات کی ایک لمبی تاریخ ہے اور اس میں سویلین اور اور فوجی طیارے دونوں شامل ہیں۔
بین الاقوامی فضائی حادثوں اور ہنگامی مواقع پر نظر رکھنے والے تنظیم ‘ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس’ کے مطابق پاکستان میں 80 سے زیادہ ایسے حادثے ہوئے ہیں جن میں 1000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔گذشتہ برس جولائی میں راولپنڈی میں آرمی ایوی ایشن کا ایک چھوٹا طیارہ معمول کی پرواز کے دوران موہڑہ کاہلو کے علاقے میں آبادی پر گر کر تباہ ہوا تھا جس کے نیتجے میں پانچ فوجیوں سمیت کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل دسمبر 2016 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا ایک جہاز حویلیاں کے قریب گرا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والے اس مسافر طیارے میں 42 مسافر اور عملے کے پانچ اراکین سوار تھے۔
20 اپریل سنہ 2012 کو نجی ایئر لائن بھوجا ایئر لائن کی پرواز اسلام آباد میں لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی تھی، اس میں 127 افراد سوار تھے۔
اس برس نومبر میں کراچی میں ایک چھوٹا طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا اور اس حادثے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ اسلام آباد کے قریب 28 جولائی سنہ 2010 کو پیش آیا تھا جب نجی ایئر لائن ایئر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی اور اس میں سوار 152 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل دس جولائی سنہ 2006 کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا فوکر طیارہ ملتان ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اُس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو بریگیڈیئر اور بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یا ابتدا میں پاک ایئر ویز کو 12 حادثے اندرونِ ملک پیش آئے جن میں سے پانچ حادثے فوکر طیاروں کے تھے۔ سنہ 2006 میں ملتان میں فوکر طیارے کے حادثے کے بعد ان طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا تھا۔