تحریر:ارشاد حسین
اس نے آنکھیں بند کیں اور سوچنے لگایہ کیاہو رہا ہے ہر طرف افراتفری کا عالم کیوں ہے لوگ پریشان کیوں رہنے لگے ہیں ہمارے ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔اس کی نگاہوں کے سامنے کچھ بھیانک سے مناظر گھومنے لگے ماڈل ٹائوں لاہور کا واقعہ اس کی نگاہوں کے سامنے آ گیا جب پولیس نے محافظ کی بجائے وحشی درندوں کا روپ دھارلیا اور لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے معصوم انسانوں کو گرتے اور پھر لاشوں میں تبدیل ہوتے دیکھا ہر طرف سسکیوں اور آہوں کی آوازیں گوجنے لگیں لیکن ان مظلوموں کی آوازیں سننے والا کوئی نہیں تھا اس سانحے میں شہید ہونے والوں کے چہرے اس کے سامنے التجا کرتے نظر آئے کہ ہمارا قصور کیا تھا ہمیں انصاف دلائو ۔لیکن وہ خاموش تھا وہ بس سوچ رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں بس پاکستانیوں پر ہونے والے مظالم کی فلم کی اس کی نگاہوں کے سامنے چل رہی تھی ہر طرف شور تھا افراتفری تھی۔
پھر اس نے کراچی میں انسانوں کو قتل ہوتے دیکھا مجرم اپنے ہاتھوں میں ہتھیار لیے نہتے لوگوں کو مار رہے تھے اور انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔۔۔ تھر کے صحرا میں بھوک سے مرتے بچوں کے چہرے بھی اس کی نگاہ کے سامنے اور بے بس ماں باپ اپنے بچوں کو دفن کرتے نظر آئے۔۔ لیکن ان کے دکھوں کو دور کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ حکمران صرف بیان دیتے رہے اور بچے بھوک اور پیاس سے اپنی معصوم جانیں گنواتے رہے۔۔۔۔پھر اس نے پشاور میں ننھے پھولوں کو شہید ہوے دیکھا۔
جنھوں نے ابھی بڑے ہو کر اس ملک کا نام روشن کرنا تھا دشمنوں نے ان کھلتے پھولوں کو اپنی خوشبو بکھیر نے سے پہلے ہی مسل دیا تھا۔ ان معصوم بچوں کے چہرے نگاہوں کے سامنے آئے جو سوال کررہے تھے کہ ہمارا قصور کیا تھا۔ کیوں ہمیں ظالموں نے بے دردی سے شہید کردیا۔ چہروں کو بھی جو اس ظالم سماج سے سوال کررہے تھے کہ اگر اس ملک سے مہنگائی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ایسی کئی مائیں خودکشی کرتی رہیں گی اور ان کے بچے ماں کی محبت سے محروم ہوتے رہیں گے ۔اس نے کواس نے لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں جلتے ہوئے دو معصوم شہریوں کو بھی دیکھا جنھیں بے دردی سے زندہ جلا دیا گیا تھا ۔اس نے اپنے عیسائیوں بھائیوں کے ان چہروں کو بھی دیکھا جو دھماکے میں مارے گئے تھے جن کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستانی تھے۔
نجانے کتنے معصوم چہرے اس کی نگاہ کے سامنے آئے اور اپنی داستان سنانے کے بعد چلے گئے ۔ہر ایک چہرہ آتا اور اپنی کہانی بیان کرنے کے بعد غائب ہو جاتا ۔بالآخر اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔سارے منظر پلک جھپکتے ہی غائب ہو گئے اور کرب کی ایک لہر اس کے دل و دماغ پر چھوڑ گئے۔وہ سوچنے لگا کہ اب بھی اگر سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن نہ ہو سکے گا اور ہم گمنامی اور تباہی کی دل دل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔۔۔۔اس نے دیوار پر نظر دوڑائی ۔اسے ایسے لگا کہ جیسے دیوار پر لگی قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر رو رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ خدارا اپنے پیارے وطن کو تباہی سے بچالو ۔یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے اپنے شہیدوں کے خون کو رائیگاں نہ جانے دو۔اس کے حلق سے دکھ بھری آہ نکلی ۔۔اے اللہ ہمارے وطن پاکستان کو ہمیشہ قائم ودائم رکھنا اور ہمیں اپنے وطن کو خوشحال بنانے کی ہدایت عطا فرما(آمین)۔
تحریر:ارشاد حسین