تحریر: ایم سرور صدیقی
چندد نوں سے دل کی عجب حالت ہے کیفیت ایسی کہ چین ہے نہ قرار۔۔۔ خیالوں میں، خوابوں میں، سوتے، جاگتے حواس پر کچھ تصویریں چھائی ہوئی ہیں چاروں اطراف تصویریں ہی تصویریں ہیں رنگین۔ بلیک اینڈ وہائٹ اور کچھ جلی۔۔۔ کچھ پھٹی ہوئی۔۔۔ ان تصویریں سے خوف محسوس ہوتا ہے مگر حقیقت سے انکار بھی تو نہیں کیا جا سکتا یہ تصویریں ہم سب کی زندگی کا حصہ بن گئی ہیں دل سے ہوک اٹھی کاش یہ تصویریں۔۔۔ محض تصویریں ہی ہوتیں آڑھے ترچھے ٹیڑھے میڑھے لوگوں کی تصویریں جو اپنے ہی لہوسے رنگین ہیں تصویریں اتنی ہیں شمارممکن نہیں۔۔۔ خیال آتاہے یہ کون لوگ ہیں شاید کچھ شناسا کچھ اجنبی ان میں اپنے بھی ہیں پرائے بھی اور دشمن بھی دوست بھی۔۔ظالم بھی مظلوم بھی کچھ نمایاں تصویریں سفاک قاتلوں کی بھی ہیں جن کی طرف دیکھ کر خوف کی لہر بدن میں سرائیت کر جاتی ہے اور پیارے پیارے چہرے بھی جنہیں پربے اختیار پیار آتا ہے۔
یہ تصویریں دیکھنے کو دل نہیں چاہتا لیکن پھر بھی مجبوری کے عالم میں دیکھنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔۔ایک تصویر پر نظرٹ کی تو کپکپی طاری ہوگئی سرچکرانے لگاتو دیوارکو تھام لیایہ تصویرکافی دیر تک نگاہوں کے سامنے ہے اس میںخون ہی خون دکھائے دے رہاہے اور انسانی گوشت کے لوتھرے نمایاں ہیںجو درو دیوارپر چپکے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر عجب وحشت ہورہی ہے ظالم اور مظلوم کا خون ہی نہیں ان کے گوشت کے لوتھرے بھی ایک دوسرے میں مدغم ہوکررہ گئے ہیں کبھی یہ گوشت پوست کے انسان تھے اب ان کی شناخت بھی ممکن نہ رہی تھی پس منظرمیں ایک مسجد کا شہید مینار بھی دکھائی دے رہا تھا۔۔۔یہ منظربھلائے نہ بھولتا تھا کہ تیز ہواسے ایک تصویر اڑکر ہمارے پائوں کے قریب آگری۔ اف خدایا!اتنی خوفناک اتنی بھیانک تصویر شایدمیں نے کبھی نہیں دیکھی تھی ایک شخص کی سر بریدہ تصویر\\چندقدم دورتن سے جدا اکیلاپڑاسرجس کا منہ اذیت سے کھلے کا کھلا رہ گیا تھا اس کی بے نور آنکھوں میں عجیب وحشت اور عجب خوف تھا ۔جو۔بارود اور آگ میں جل کربھسم ہوگیا تھایہ تصویریقینا کسی خودکش حملہ آورکی ہوگی۔۔۔ایک تصویرمیں انسانی جسموں کے اجزا بکھرے پڑے تھے کہیں اکیلی پڑی ٹانگ۔۔۔کہیں بازو کہیں خون آلود جوتے۔۔ کہیں ملغوبہ اور کہیں پا بریدہ اجسام ۔۔کسی تصویر میں لوگ اپنے پیاروں کو دیوانہ وار ڈھونڈرہے تھے کسی میں ان کی میت پر نوحہ کناں۔۔ کئی زخمی بے یارو مددگار امداد کے منتظرتھے۔ایک تصویرمیں ایمبو لنس میں زخمیوںکو ہسپتال منتقل کیا جارہاتھا دل نے کہا الہی یہ سب کچھ پاکستان میں کیوں ہورہاہے؟اس ملک کو کس لئے اتنی بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے۔
خودکش حملے،بم دھماکے اور روز روزکی دہشت گردی کیوں؟۔۔یہ سوچ سوچ کر رب ِ کریم سے گلہ شکوہ کہ ایک تصویر پر جیسے نظر جم گئی اس تصویر نے تو رلاکررکھ دیا درندگی کی اتنی بڑی مثال شاید پیش نہ کی جا سکے۔۔۔ظلم کی انتہا اتنی جیسے دل ڈوب ڈوب جائے سینکڑوں معصوم بچوں کے لاشے۔۔۔ ان کے چہرے اور جسم خون سے لت پت نہ ہوتے تو شاید یہ تمجھ لیا جاتا جیسے ننھے فرشتے گہری نیند سو رہے ہیں کتابیں، بستے یونی فارم سب خون میں تر ۔۔کسی کے چہرے پر تبسم۔۔ کوئی جیسے کھیلتے کھیلتے سو گیا ہو ۔۔۔کوئی جسے تتلیوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے تھک گیا ہو یاپھر اپنی ماں کی لوری سنتے سنتے خواب دیکھ رہاہو۔۔ غور سے دیکھا اجلے چہروں والی دو تین خواتین بھی آڑی ترچھی زمین پر پڑی نظر آئیں سب کے چہروں ،دامن اور کتابوںپر خون جم گیا تھا اس کے باوجود یوں لگتا تھا جیسے آ رمی پبلک سکول پشاور کے بچے ابھی اٹھ کر بھاگتے دوڑتے خوشی سے چیختے چلاتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گھڑے ہوں گے لیکن وہاں تو موت کی سی خاموشی طاری تھی پھر کونے میں پڑی چند تصویریں نظرآئیں ہچکیاں لیتے بہن بھائی،سسکیاں لے لے کر اپنے گھروالوںکو تسلیاں دیتے والدین،زارو قطار روتی سہیلیاں اور دوست اور دھاڑیں مارمار کر روتی مائیں عزیز و اقارب ۔۔۔ان کے عقب پر ، کسی کی پشت پر کھڑے مختلف عمروں کے خواتین و مرد کسی کی آنکھوںپر آنسو۔۔۔کوئی ہچکیاں لے رہاتھا ۔۔کوئی سسکیاں جیسے ان کا کوئی اپنا مرگیا ہو۔
پھر ایسے لگا ننھے فرشتوں کی تصویریں بھیگتی جارہی ہیںہماری اپنی آنکھوںسے بے اختیارٹپ ٹپ آنسو گررہے تھے ۔۔کئی لمحے گم سم، یقین،بے یقینی کے عالم میں ان تصویروں کو اٹھاکر سینے سے لگا لیاپھر توجہ بٹی تو دیکھا ایک تصویر بوری بند لاش کی تصویر تھی کراچی میں جب پہلی بار ایسی لاش ملی تو پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی پھر نہ جانے کیاہوا پورے ملک کے بیشتر شہروںسے ایسی بوری بندلاشیں ملنا معمول بن گیا جرائم پیشہ افراد نے اپنے اینے گینگ بنا لئے سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ بھی قائم ہوگئے خوبرو لڑکیوں، مالدار نوجوان اور سماجی و سیاسی کارکنوں کی بوری بند لاشوںنے ایک کہرام مچا دیا عجیب دور آگیاسیاستدان لاشوںپر سیاست کرنے لگے بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں نے خون آلود تصویروںمیں خوفناک حد تک اضافہ کردیا۔۔۔ہم یہ تصویریں دیکھنے میں مگن تھے کہ اچانک ایک عجیب سی آواز سنائی دی شاید کوئی جہاز یا پھر ڈرون ۔۔۔پھر چیخ وپکار آہ و بکا صبح اخبارات میں تصویریں چھپی ایک دینی مدرسہ پر ڈرون حملہ نو عمر بچوں سمیت درجنوں ہلاک۔۔۔یہ تصویریں دیکھ کر دل تھام لیا کہ کوئی غیرملکی ڈرون جب چاہے دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑمیں پاکستانی حدودمیں داخل ہوکر میزائل پھینکے اور جیتے جاگتے انسانوںکو ان کے اپنے خون میں نہلا کر چلا جائے اور اخبارات میں انسانی جانوںکی قیمت محض چند خون میں ڈوبی تصویر یں۔۔۔۔اورچندکالمی خبریں ۔۔۔قوم کے دامن میں چند ایسی تصویریں بھی ہیں بلاشبہ جن پر فخرکیا جا سکتاہے عقیدت، احترام اور محبت سے وہ تصویریں سینے سے لگائے اکثر دل سے آواز آتی ہے وہ لوگ کتنے عظیم ہوتے ہیں جنہوںنے ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کردیا ہمیں زندہ دیکھنے کیلئے خود شہید ہوگئے ان تصویریں کو دامن میں اکٹھا کرکے کبھی چوما کبھی کبھی عقیدت سے سیلوٹ کرنے کو جی چاہا یہ کوئی معمولی لوگ نہیں تھے یہ تصویریں شہیدوں کی تصویریں ہیں ہمارے فوج کے شیر جوانوں، رینجرکے سپاہیوں اور پولیس کے جوانوں کو تصویریں جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ان کے چہروںپر کتنا سکون،طمانیت اورراحت ہے یہ فرض کی جنگ میں فتح یاب ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے تھے۔
وہ تصویریں بھی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگیں جن میں آ رمی پبلک سکول پشاور کے بچوںکے طلباء کو بچانے کے لئے دہشت گردوں کے سامنے سینہ سپر ہونے والی پرنسپل طاہرہ قاضی کی تصویر تھی جس کے چہرے پرہلکا سا تبسم تھا پھر۔۔۔ وہ بہادر نوجوان اعتزازحسن بھی بے اختیار یاد آنے لگاجس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے سکول کے ہزاروں طلباء کو خود کش بمبار کے حملے سے بچایا تھا اس کے ساتھ ساتھ ایک ہنستے مسکراتے شخص کی تصویر تھی یہ شخص ایک سکول ٹیچر نصراللہ شجیع تھا جو اپنے طالبعلم کی جان بچانے کے لئے دریا کی بے رحم موجوں سے ٹکرا گیا تھا ایک اور تصویر نظروںکے سامنے آئی بے اختیار اسے بھی سیلوٹ کرنے کو جی چاہا آگ میں گھری بس سے اپنے سکول کے بچوں کو نکالتے ہوئے شہادت کا رتبہ پانے والی خاتون سمیعہ نورین ۔۔۔ابھی قوم کے ہیرو یکے بعد دیگرے یاد آرہے تھے کہ دھماکے سنائی دئیے تصور میں چیخیں ،آہ و بکا ، بین کرتے لوگ، ایمبولینسوں کے سائرنگ سماعت سے ٹکرائے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں تو ایک طرف چرچ ، دوسری جانب امام بارگاہ آگ، دھواں ،بارود، خون۔۔ وہی زخمیوں کی چیخ و پکار ان کے لواحقین کااحتجاج ہنگامہ آرائی شہید ہونے والوں کے لاشے۔ سرسے محروم خودکش حملہ آور ۔نہ جانے کتنے کٹے پھٹے اجسام ۔۔ الہی یہ کیا ہورہا ہے ؟۔۔کیوں ہورہا ہے؟ دور ایک مسجد سے بھی دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔۔۔ ظلم وبربریت کی انتہا دل کانپ کانپ گیا وحشت ، جنوں اور غم سے اپنے ہی بال نو چنا کیسا لگتاہے اس دن محسوس ہوا۔۔یہ کیا کم تھا کہ بار بار کچھ تصویریں تصور میں آنے لگیں جسے سوال کررہی ہوں ہمارا کیا قصور؟ ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی یہ تصویریں ان لوگوں کی تھیں جنہیں مشتعل ہجوم نے زندہ جلا ڈالا تھا پھر یوں لگا جیسے سب تصویروں کے کردار اٹھ کھڑے ہوں ان میں کئی لوگوںکی تصویروں کبھی نہیں دیکھی تھیں جسے وہ کہہ رہے ہیں کتنے ظالم ہو ہمیں فراموش بھی کر دیا۔
دوسری جانب سینکڑوں ہزاروں افراد بچے ،بوڑھے، نوجوان ،باریش،خواتین فوجی، سپاہی نہ جانے کون کون سب کی الگ کہانی۔ الگ دکھ۔سب کے سب معذور کوئی ہاتھ سے ۔۔۔کسی کا پائوں نہیں کوئی بازو سے محروم کسی کے چہرے کے بھدے نقوش ،کوئی خلائوں میں کھوررہا تھا گبھرا کر آنکھیں بند کیں تو وہ خیالوں میں در آئے سوچ پر حاوی ہوگئے بے اختیار رونے کو جی چاہا اتنی دیر اپنے پیاروں کی۔۔۔ انپے ہم وطنوں کی المناک تصویریں دیکھ دیکھ کر آنکھوں سے آنسو خشک ہوگئے تھے کئی دنوں سے نیند کوسوں دور ہے پپوٹے بوجھل ہورہے ہیں حواس ، دل اور دماغ پر یہ تصویریں چھائی ہوئی ہیں دل یہ تصویریں دیکھنا نہیں چاہتا ان کے بارے میں بات بھی نہیں کرنے کا یارا نہیں لیکن یہ تصویریں سراپا سوال بنی ہوئی ہیں ہر کسی کے ہونٹوں پر ایک نیا سوال مچل رہاہے میرے پاس کسی کے سوال کا کوئی جواب نہیں پھر وہی کیفیت ہوگئی ہے پھر یہ تصویریں سونے نہیں دیتیں چکراتے سرکو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اپنے رب کو پکارا ۔۔الہی کرم کر اپنی رحمت سے نواز۔۔۔لیکن آس پاس شور بڑھتا ہی جارہاہے نگاہوں کے سامنے تصویروں کے انبار لگتے جارہے ہیں تصویروں سے سسکیوں ، ہچکیوںکی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں غور کیا تو محسوس ہوا یہ آوازیں تو میرے اپنے دل سے آرہی ہیں پھر سرکو تھام کراٹھا چکراکر دہلیز پر ڈھیر ہوگیا شاید میں خود ایک تصویر بن کررہ گیا ہوں۔ ایسی تصویر جو خود سراپا سوال ہو۔
تحریر: ایم سرور صدیقی