counter easy hit

‘کبوتر با کبوتر باز با باز’

'Pigeon Pigeon's Hawk Hawk's

‘Pigeon Pigeon’s Hawk Hawk’s

_92921457_l-07 _92921459_l-05 _92921461_l-04 _92921463_l-03 _92921495_l-06دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح انڈیا میں ہم جنس پرستی ابھی تک قابل تعزیر جرم ہے لیکن ایک عرصے سے اسے جرم کے زمرے سے نکالنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

سنہ 2009 میں دہلی ہائی کورٹ نے برطانوی عہد کے اس قانون کو ہندوستانی آئین میں دیے جانے والے بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا تھا۔

اس کے بعد سنہ 2013 میں سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے تحت دہلی ہائي کورٹ کے فیصلے کو بدلتے ہوئے اسے جرم کی فہرست میں برقرار رکھا تھا۔

٭ اک معمہ، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

ہم جنس پرستی کو جرم کی فہرست سے نکالنے کے لیے سنہ 2015 میں کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور کی جانب سے پارلیمان میں ایک بل پیش کیا گیا جسے 24 کے مقابلے میں 71 ووٹوں سے شکست کا سامنا رہا۔

انڈیا میں اس پر بحث ابھی جاری ہے لیکن رواں سال کے اوائل میں سپریم کورٹ نے اس پر از سر نو غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مولوی، پنڈت، راہب پادری سب سر میں سر ملاتے نظر آتے ہیں۔

لکھنؤ کی معروف یونیورسٹی ندوۃ العلما کے نوجوان عالم ہوں یا ایک جدید یونیورسٹی کے طالب علم انھیں ہم جنس پرستی قبول نہیں اور وہ اسے غیر فطری عمل، سماج کے لیے مہلک اور چند بھٹکے ہوئے افراد کا وطیرہ بتاتے ہیں۔

ندوۃ العلما کے عالم محمد فرمان ندوی کہتے ہیں: ‘یہ غیر فطری عمل ہے اور اسے سماج کے دانشور طبقے کو روکنا چاہیے ورنہ اس کے سماج پر منفی اور مہلک اثرات پڑیں گے۔’

غیر فطری سے ان کی کیا مراد ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ‘انسان صدیوں سے پاؤں سے چلتا آ رہا ہے، کسی کو آپ نے سر کے بل چلتے نہیں دیکھا۔ یا پھر انسان منھ سے کھا رہا ہے ناک سے کھانا رائج نہیں اسی طرح اللہ نے افزائش نسل کے لیے خاتون اور مرد بنائے ہیں اور یہ سب فطری ہیں۔ اس کے خلاف جانا غیر فطری عمل ہے۔’

لیکن ہم جنس پرستوں کے لیے کام کرنے والے محمد عارف کا کہنا ہے کہ ‘ہم جنس پرستی بھی فطری ہے، اس پر ان کا زور نہیں وہ اسی طرح پیدا ہوئے ہیں۔’

ان کے مطابق ‘لکھنؤ میں یا پھر کسی دوسری جگہ لوگوں میں کم از کم اتنی بیداری پیدا ہوئی ہے کہ وہ سر عام ان کی مخالفت میں سڑکوں پر نہیں اترتے ہیں۔’

کیا مسلمانوں میں ہی ہم جنس پرستی کا رجحان زیادہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ‘مسلمانوں میں خواجہ سراؤں یا ہیجڑوں کو قبول کیا جاتا ہے جبکہ ہندوستان کے دوسرے مذاہب میں ایسا نہیں ہے۔ اس لیے دوسرے مذاہب کے ہیجڑے یا ہم جنس پرست اپنے تحفظ کے تحت اپنا نام بدل کر خود کو مسلم ظاہر کرتے ہیں۔’

جبکہ انھی کی طرح ایک دوسرے ہم جنس پرست نوجوان نے بتایا کہ انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں کہا کہ ‘اگر کسی کے گھر اس فطرت یا میلان کا کوئی بچہ پیدا ہو جائے تو اسے طرح طرح سے ستایا جاتا ہے۔’

ان کا دعویٰ ہے کہ ‘ایسے افراد کو زدو کوب کیا جاتا ہے یہاں تک کہ انھیں عاق یعنی وراثت کے حق سے بے دخل بھی کر دیا جاتا ہے۔’

انھوں نے راہ چلتے ایک لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہم جنس پرست میلان رکھتا ہے۔ ہم نے جب دریافت کیا کہ انھوں نے کیسے پہچانا تو ان کا کہنا تھا ‘اس کی چال بتاتی ہے کہ وہ زنانہ صفت ہے اور وہ کسی مرد ساتھی کے ساتھ زیادہ خوش رہ سکتا ہے۔’

جبکہ لکھنؤ میں قائم ایک یونیورسٹی کے طالب علم ارپن شکلا کا کہنا ہے کہ ‘یہ غیر فطری عمل ہے اور وہ کسی طرح اس کے حق میں نہیں ہیں۔

انھوں نے مزید کہا: ‘جہاں تک لکھنؤ کا سوال ہے تو اکثر و بیشتر افراد اس کے خلاف ہیں معدودے چند لوگ اس کے حق میں ہوسکتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔’

اسی یونیورسٹی کی طالبہ دویہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ‘جمہوریت میں سب کو اپنی طرح سے جینے کا حق حاصل ہے۔’

ان کا خیال ہے کہ ہم جنس پرستی میں صرف لڑکوں یا صرف لڑکیوں کے تعلیمی ادارے سے بھی اضافہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی لڑکے کی لڑکے میں کسی لڑکی کی لڑکی میں دلچسپی پیدا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ وہ مخلوط تعلیمی نظام کے حق ہیں۔

جبکہ ان کی ساتھی سائمہ کا کہنا ہے کہ ‘نوجوان اس کے بارے میں منفی نظریات نہیں رکھتے بلکہ معمر افراد اس کے خلاف ہیں۔’

ان کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ فکر بدل رہی ہے اور لوگ سرعام اس کی مخالف میں بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ نوجوان نسل کو اس موضوع پر بات کرنے سے کوئی پرہیز نہیں۔

عارف آنے والے دنوں میں لکھنؤ میں ہم جنس پرستوں کی ایک پریڈ نکالنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ سماج کی نبض جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ ایسی کوئی پریڈ لکھنؤ میں نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website