اسلام آباد (یس ڈیسک) پمز اسلام آباد سے 9 جنوری کی رات اغوا کیے گئے نومولود کاابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ بےبس لواحقین احتجاج کے ساتھ منتیں بھی کررہے ہیں۔ کہتے ہیں اسپتال سے خالی گود نہیں لوٹیں گے۔ تحقیقات کہاں تک پہنچی ؟؟۔ نومولود کی پھوپھی ناظمہ کے مطابق بھائی کا فون آیا کہ بھتیجا ہوا ہے میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ کاش میں جلدی سےاسپتال پہنچ جاوں اور کسی طرح اسے گلے لگا لوں ۔گھر کی پہلی خوشی ملتے ہی روٹھ گئی ، تیاریاں دھری رہ گئیں۔
شازیہ کے نومولود بچے کو پمز سے اغوا ہوئے دوسرا ہفتہ بھی ختم ہونے کو ہے ۔تحقیقات بہت ہوئی لیکن ممتا پیاسی ہی رہی ۔نومولود کی ماں شازیہ کا کہنا ہے کہظاہر ہے وارڈ میں سب کے پاس بچے ہیں کسی کا بھی بچہ روتا ہے تو سوچتی ہوں میرے بچے کو کون چپ کرائے گا ،سوچا تھا اسے پڑھاوں گی لکھاوں گی بڑا آدمی بناوں گی،میں کتنی آس لے کر یہاں آئی تھی ، اب میں خالی گود لے کر نہیں جانا چاہتی ۔۔ باپ ضیاء اللہ کا تو سب کچھ اجڑ گیا ۔سارےخواب ٹوٹ گئے۔
انہوں نے کہا کہ میں ہر پل مروں کا ہر پل جیوں گا ۔ کوئی بھی بچہ روتا ہے تو میں اسے اٹھا لیتا ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اپنے بچے کو بہت پیار دوں گا ۔بچے کی تلاش میں ضیاء اللہ کا خاندان مارا مارا پھرتا ہے ۔ اسپتال کے باہراحتجاج ،ساتھ منتیں، فریادیں ،دعائیں سب جاری ہے۔ابھی بھی ہر رات اس امید پر ہوتی ہوں کہ شاید اس عورت کے دل میں رحم آجائے اور وہ اسی بیڈ پر ہمارا بچہ ہمیں لوٹا دے۔
نومولود کے اغوا کا آخر ذمہ دارکون ہے؟؟رابطہ کرنے پر کہا جاتا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں ۔ کیسی تحقیقات ؟؟پمز کی تحقیقاتی رپورٹ میں بچے کی جنس ، پیدائش اور اغوا کے اوقات میں ہی تضاد ہے ۔ پولیس کی خانہ پری بھی جاری ہے ۔ ہے کوئی جو والدین کا لخت جگر بازیاب کرا دے؟؟ نجانے دعائیں کب رنگ لائیں گی ؟؟۔