تحریر: شاہ بانو میر
حکمت عملی ایسی منصوبہ بندی کو کہتے ہیں جس میں ذات انا اور مستقبل قریب کا فائدہ پوشیدہ نہیں ہوتا بلکہ دور رس ملک گیر سطح پر مستقبل بعید کی کامیابیاں متمع نگاہ ہوتی ہیں خاں صاحب 122 کا فوبیا اب ختم کیجئے ملک اس کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا پاکستان کا سوچیں نکلیں اب حلقہ این اے 122 سے تسلیم کیجئے کہ اللہ پاک کے اختیار میں ہے طاقت دیناجسے وہ پسند کرلے عطا کر دے اس ملک کے غریب لوگوں کو اتنی سخت سزا نہ دیں انہیں کہ وہ بھی میری طرح اب کڑھنے لگیں اورآپ سے بد ظن ہو جائیں آخر جب تک آپ کی انا کو تسکین نہیں ملتی مرضی کا رزلٹ نہیں آتا اس وقت تک پاکستان کی حکومت اور ساری مشنری آپ کے ہاتھوں تماشہ بنی رہے گی؟۔
دوسری جانب ذرا اٍک نظر جنرل راحیل پرسکون خاموش ساکت لب سلے ہوئے لیکن سرحدوں پر دہاڑتے ہوئے راحیل کے شیر جب دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں یا تو اسکو جہنم واصل کر دیتے ہیں یا ملک پر جسے مسلسل نظام کے نام پر آپ تماشہ بنائے ہوئے ہیں اس کی حرمت اور اس کی حفاظت کیلئے خود کو قربان کر دیتے ہیں بغیر کسی شکوے کے کہ آپ جیسے سیاستدان گرم اورٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ملک میں انتشار کی فضا کو بڑہاوا دیتے ہیں اور سیاستدانوں کی مہربانی سے جب ملک اندر سے کمزور ہوتا ہے تو باہر کا دشمن کاری وار ملک کے کسی بھی کمزور حصے پر کر جاتا ہے وہاں جنرل راحیل اور ان کے جوانوں نے اپنے خون سے ملک بچانا ہےآخر کیا مسئلہ ہے؟
2018 تک نواز شریف آپ کے اعصاب پر سوار ہے؟ جسے ہر صورت اتارنا ہے تو کپتان جی کہنا پڑے گا کہ بڑے مقابلے کرتے ہیں تو ظرف کو بھی بڑا رکھیں معذرت کے ساتھ لکھنا چاہوں گی ملک یا نظام اگر ممی ڈیڈی بچوں کے ناچ گانے سے رونق میلوں سے تبدیل کئے جاتے تو یہ سلسلسہ تو بہت عرصہ قبل شروع ہو چکا ہوتا خون بہانا پڑتا ہے اور خون میں یہ طاقت ہے کہ یہ بہے تو مہینوں کا دھرنا یکلخت ختم ہو جاتا ہے دوسری جانب اسی ملک میں جہاں آپ کے نعروں پر مبنی منفی سیاست ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی وہیں دوسری جانب جس ادارے کے جوان خون سے دھرتی کو لال کر کے ماؤں بہنوں کی عصمت کو بچا رہے عوام واضح فرق اپنے رویئے سے اندرون ملک اور بیرون ملک رد عمل سے بتا رہے ہیں۔
اس ادارے کا سربراہ سپہ سالارٍ پاکستان جب خانہ کعبہ کی زیارت کو اور مدینہ منورہ جاتا ہے تو مسجد دعاؤں سے نعروں سے دعائیہ کلمات سے مسجد نبوی گونج اٹھتی ہے پاکستانیوں کا ہجوم اپنے ہر دلعزیز بہادر سپہ سالار کے پیچھے یوں جوق در جوق بھاگتے ہوئے جا رہے فلم بنا رہے جیسے وہ سامنے قائد سے مماثلت رکھتے کسی بڑے انسان کو اپنے درمیان دیکھ رہے ہیں یہ ہے قربان ہونے والوں کی قدرو قیمت جو لوگ اپنے انداز سے دکھاتے جو آج آپ کیلئے نہ سنائی دیتی ہے اور نہ دکھائی دیتی ہے غور کریں اس گرتے ہوئے سیاسی اور عوامی ابال کو خان صاحب انا پرستی نے بہت بڑی قیمت لی ہم سے 141 حرماں نصیب پھول جو اب نہیں ہیں کچھ رحم کیجئے سیاست کو سیاست کی طرح کریں۔
ذاتی مسائل کو انتقامی سیاست کی آڑ میں نہ رنگیں مضبوط بنیاد ہو تو سیاست پر صرف سیاست کا رنگ رہتا ہے کبھی مذہبی آڑ تو کبھی سماجی آڑ نہیں لی جاتی اپنی شوریدہ طبیعت کو قدرے تلاطم سے باہر نکلنے دیں کچھ عرصہ نفسیاتی کیفیت سے ہونے والی وقتی مایوسی سے بیرونی خصوصٍٍٍاٍ ٍصحافتی برادری سے قدرے دورٰ اختیار کریں خوشیوں میں ان کی رسائی تھی تو اب اس وقت وہ دور خود کو کیسے کریں خان صاحب اس وقت ارد گرد پورے ملک میں مچی مایوسی اور ناقص پارٹی نظام پر غور کر کے گوشہ نشینی اختیار کریں نظام کی اصلاح پاکستان سے پہلے آپ کی پارٹی کے اندر ضرورت ہے تاکہ برسر اقتدار آنے والے کسی مستحکم صابرانہ سوچ کے مالک توہوں آجکل آپ دنیا سے قسدرے پرے ہیں۔
تنہائی بہترین رفیق ہے سوچ و بچار کیلئے مشکل اللہ اپنے پیارے بندوں پر اسی لئے ڈالتا ہے کہ وہ دنیاوی معاملات سے قدرے پرے ہٹ کر اس بھاگتی دوڑتی نمائشی دنیا سے دور ہو کر مستقبل کیلئے بہترین منصوبہ بندی کر سکیں یہی موقعہ شائد آپ کی شورش پسند طبیعت کو قدرے سکون عطا کر دے انتظار شرط ہے 2018 تک کامیاب پی ٹی آئی اور کامیاب عمران خان کیلئے انا کو میں کو قربان کر کے یہ منزل ضرور ملے گی شور دریا سے آپ سکوتَ سمندر بن کر پھر سے طاقتور انداز میں بہترین اصلاحی مثبت انداز میں سامنے آئیں۔
شور ٍ دریا سے یہ کہتا ہے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا وہ خاموش ہے
تحریر: شاہ بانو میر