تحریر : عفت
کچے صحن کی لپائی کرتے کرتے جیسے ہی اس کی نظر باہر سے آنے والے رستے پہ گئی ۔اڑتی دھول کا غبار نظر آیا مارے تجسس کے اماں جنتے اٹھ کھڑی ہوئی ۔رب دیاں خیراں کدرے ریاض پتر تے نئیں آگیا ۔اس نے فٹا فٹ نلکے سے ہاتھ دھوئے اور باہر نکل آئی سامنے چوڑی سی پگڈنڈی تھی جو حد ِنظر فاصلے پہ جا کر کچی سڑک میں ضم ہو جاتی تھی اس کچی سڑک سے شہر سے آنے والی بس دو ٹائم گذرتی تھی صبح وہ جاتی اور شام ڈھلے واپس آتی ۔گائوں والے اسی بس پہ شہر جاتے اور شام کو لوٹ آتے ۔شہر جانے والے لوگ بھی مخصوص تھے ۔ڈاکٹر فضل دین جو کسی زمانے میں کسی حکیم کے پاس دو ماہ کی نوکری کر کے ڈاکٹر کہلاتا تھا ہر ہفتے پندرہ دن بعد شہر دوائیاں لینے جاتا ۔اس کے پاس ست رنگے رومال ہوتے جس میں وہ مختلف گولیاں باندھ کر لاتا۔لال رومال میں بخار کی، پیلے میں درد کی ،نیلے میں قبض کی ،گلابی میں جلاب کی ،الغرض اس کے رومال دوا خانے میں گائوں والوں کے ہر مرض کا علاج موجود ہوتا ۔شہر جانے والا دوسرا شخص اسلم ڈاکیا تھا جو ڈاک لاتا تھا ۔پھر اکرم پنساری والا جو ضرورت کا سودا سلف لینے جاتا تھا گائوں میں اس کی واحد دکان تھی جہاں سے گائوں والے خریداری کرتے ۔گائوں میں پانچویں تک نام کا اسکول موجود تھا جہاں ماسٹر اللہ بخش کا راج تھا بچے پڑھتے کم اور لڑائیاں اور کشتیاں ذیادہ کرتے تھے ایک بچا سارا دن پہاڑے ایک دونی دونی ،دو دونی چار ، رٹاتا رہتا اور ماسٹر صاحب رنگیں پائیوں والی چارپائی پہ لیٹے حقہ کی نال منہ میں دبائے حقہ گڑگڑاتے رہتے ۔صدیقا ذرا جاندار لڑکا تھا وہ ان کی مٹھی چاپی کرتا رہتا۔
ریاض اماں جنتے کا اکلوتابیٹا تھا ،اس کا شوہر ایک وبائی بیماری میں چل بسا تھا ۔بھری جوانی میں بیوگی کے بعد اس کی ساری توجہ کا مرکز ریاض ہی تھا ۔ریاض نے پانچویں تک ماسٹر اللہ بخش کے زیر ِسایہ تعلیم حاصل کی آگے پڑھا کر بائو بنانا جنتے کا خواب تھا ۔دو بیگھے زمیں سے گذر بسر ہی ہوتی تھی گھر کا آٹا دانا چلتا ۔مگر اماں جنتے بڑی توکل پسند عورت تھی اس نے ٹھان رکھی تھی کہ ریاض کو پڑھانا ہے ۔سو اس نے کچھ کر کرا کے ریاض کو شہر بھجوا دیا وہاں اس کا دور کے رشتے کا بھائی رہتا تھا اس نے ایک سرکاری اسکول میں ریاض کو داخل کروا دیا فیس تو برائے نام تھی مگر جنتے کی بھابھی کو ریاض کی دو روٹیاں بھاری لگتیں ۔آخر جیسے تیسے کر کہ ریاض نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا ۔کل ہی اس کا خط آیا تھا کہ وہ آج کل میں واپس آرہا ہے اس لیے اماں جنتے کو اس کا انتظار تھا۔
اماں جنتے نے ہاتھوں کا چھجا بنا کر دور نظر دوڑائی آنے والے کی شبیہہ واضح ہو گئی وہ ریاض ہی تھا ۔ماں کی ممتا بے تابی سے آگے بڑھی بسم اللہ میرا پتر آگیا اس نے ریاض کے گرد آلود چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر ماتھے پہ بوسہ دیا ماں صدقے قربان ۔ریاض نے ماں کو سلام کیا اور ساتھ لگائے گھر میں داخل ہوا ۔بیٹھ میرا بچہ اماں جنتے نے بڑا سا پیڑھا بچھایا اسکو اپنے بوسیدہ دوپٹے سے جھاڑا اور بلائیں لیتے ہوئے ریاض کو بیٹھنے کو کہا ۔خود جلدی سے لسی کا گلاس بھر کے لے آئی جس پہ مکھن کا پیڑا تیر رہا تھا ۔اماں کیسی ہے تو؟ریاض نے گلاس تھامتے ہوئے پوچھا ۔میں ٹھیک ہوں پتر تو بڑا ماڑا ہو گیا ہے ٹھیک تو رہتا ہے نا؟اماں جنتے کو اپنا قد نکالتا ہوا بیٹا کمزور لگ رہا تھا ۔ہاں اماں میں بالکل ٹھیک ہوں ۔اماں بھوک لگ رہی کتنے دن ہو گئے تیرے ہاتھ کا کھانا نہیں کھایا ۔ریاض نے لاڈ سے ماں کی گود میں سر رکھ دیا ۔میں واری میرے لال تو منہ ہاتھ دھو میں ابھی تیرے لیے روٹی پکا کے لائی ۔ریاض مسکراتے ہوئے نلکے کی طرف بڑھ گیا۔
اب آگے کیا کرنا ہے تو نے پتر؟چاچا رحیم ریاض سے پوچھ رہا تھا۔بس چاچا نتیجے کا انتظار پھر آگے پڑھوں گا ابھی تو منزل دور ہے ۔اس نے کھیتوں میں لگے پانی کے کنارے پہ بیٹھے سفید بگلوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا ۔پر پتر تیری ماں اب وڈیری ہو گئی ہے اس کا خیال کر آگے پڑھنے کے لیے تو سنا ہے بڑا پیسا چاہیے ۔میری مان تو کوئی کام وام کر لے شہر میں ۔چاچارحیم نے صلاح دی۔اچھا چاچا اماں انتظار کر رہی ہوگئی میں چلتا ہوں ریاض نے کھڑے ہو کر کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا ۔اور گھر کی طرف چل دیا۔ امتحان کا نتیجہ آگیا اور ریاض اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا مگر اب آگے پڑھنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی ۔اماں جنتے نے اپنی زمین زمیندار کے پاس گروی رکھوا دی اور اس سے رقم لا کر ریاض کے ہاتھ پہ رکھ دی۔
اماں جنتے اپنی آنکھوں کے خواب ٹوٹتے ہوئے کیسے دیکھ سکتی تھی سو اس کا مطمع نظر ریاض اور اس کا مستقبل تھا ۔ریاض نے پارٹ ٹائم ایک گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا ۔چار سال اسی طرح بیت گئے گریجویشن مکمل ہوئی تو نوکری کی تلاش شروع ہوئی مگر جب جوتوں میں سوراخ ہو تو نوکری کون دیتا ہے چھ ماہ بیت گئے ۔ریاض ہر آنے والے دن کے ساتھ مایوس اور اماں جنتے کی کمر خمیدہ ہوتی چلی گئی ۔زمیں بھی ہاتھ سے گئی نہ اتنی رقم ہوتی کہ زمیندار کا قرض اترتا ۔اب ریاض پہ باہر جانے کی دھن سوار ہو گئی ۔وہ بہت چڑچڑا ہو گیا تھا اور اماں جنتے خاموش ۔آخر ایک دن غیر قانونی طور پہ لانچ کے زریعے مسقط جانے کا انتظام ہو گیا ۔رہی سہی زمین بھی زمیندار کو بیچ کر رقم لے کے،ریاض اماں جنتے کو خواب اور تسلیاں دے کر کراچی چلا گیا جہاں سے اسے مسقط جانا تھا۔
ایک بار پھر اماں جنتے کے دامن میں خوابوں کا انتظار سما گیا اور اسکی بوڑھی نظریں دھول اڑاتی پگڈنڈی پہ جم گئیں جہاں سے ریاض نے آنا تھا ۔برسوں پہ برس بیت گئے آنکھوں میں انتظار کی شمعیں مانند پڑنے لگیں ۔اور پھر ایک دن شمع بجھ گئی مگر آنکھیں دھول اڑاتی پگڈنڈی پہ ہی تھیں جہاں کسی کی آمد کی دھول اڑ رہی تھی ۔مگر وہ آنکھیں پتھرا چکی تھیں ۔انہیں کیا خبر تھی کہ مسافر تو سفر کے دوران ہی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرتے ہوئے کوسٹ گارڈ کی فائرنگ سے عازم سفر ہو گیا تھا۔
تحریر : عفت