تحریر : ممتاز ملک
ہمارے ہاں کا قومی رواج ہے کہ کوئی بھی حادثہ ہو جائے سانحہ ہو جائے کچھ بھی ہو جائے، حکومت کو جب عوام کے غیض و غضب سے بچنا ہو تا ہے تو وہ اس کے منہ پر کمیشن کی ٹیپ چپکا دیتی ہے . بلکل ویسے ہی جس طرح ڈاکو جب کسی کو لوٹتے ہیں تو اس لٹنے والے کے شور سے کوئی خبردار نہ ہو جائے یا شور مچانے سے اس کا گلہ نہ خراب ہو جائے، اس کے منہ پر ٹیپ چپکا دیتے ہیں . کسی نے ایک آدمی سے پوچھا کہ بھائی خدانخواستہ 9/11 کا واقعہ ہمارے ملک میں ہوتا تو حکومت کیا کرتی . اس نے ہنس کے جواب دیا کہ کیا کرتی، ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی،
یا عوام پھر بھی شور مچآنے سے باز نہ آتی تو حادثے پر ایک کمیشن بنا دیتی .
یہ وہ کمیشنز ہوتے ہیں جن کا پچھلے ستر سال میں نہ تو کوئی کام منظر عام پر آیا اور نہ ہی عوام کو اس کا کوئی نتیجہ ملا . ہمارے ہاں اکثر مجرمان کے ڈانڈے اوپر والوں سے جا کر ملتے ہیں اور تب تک ملے رہتے ہیں جب تک وہ خود خدا سے نہ مل جائیں
ویسے اس کمیشن سے ان لوگوں کو بھی خوش کیا جاتا ہے جنہیں وزیر بے محکمہ کے آخری پائیدان کے بعد بھی کوئی وزارت نہیں ملتی لہذا ان سب متاثرین وزارات کو متبادل کے طور پر کسی بھی کمیشن کا رکن بنا دیا جاتاہے . آخر کو انہوں نے بھی انتخابات میں اپنا کالا دھن سفید کیا ہے . تو کچھ نیلا.پیلا کرنا تو انکا بھی بنتا ہی ہے
اس کمیشن کا کمال یہ ہوتا ہے کہ پہلے تو بدھو عوام کے منہ بند ،دوسرا بیکار ممران کو عہدوں کی سپلائی تیسرا اپنے سارے اوپری پہنچ کے کرائے کے مجرمان کی پردہ پوشی کا مستقل حل تلاش کیا جاتا ہے.اور اس سارے دودہ کی ملائی بھی تو ہوتی ہے وہ ہے ہر کمیشن پر باتیں شہادتیں دبانے پر ملنے والا کمیشن. یعنی جسے بھی کمیشن سے بچنا ہے تو کمیشن لگائے . کسی کو پھنسایا ہے تو کمیشن لگائے کسی کو بچانا ہے تو کمیشن لگائے . یوں ساری قوم مل کر حکومتی کمیشن کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتی ہے
چاہے کمیشن کے کمیشن میں حصہ نہیں بھی ملتا لیکن جنہیں ملتا ہے وہ بھی اس ملک کی باعزت برادری ہے . تو ترقی تو ملک ہی کرتا ہے نا جناب . تو حکومتی اعلان اور کمیشن کمیشن کھیلیں پر ناک بھوں چڑھانے کی بجائے اس کی برکات پر غور کیا کریں
کیونکہ ناک بھوں وہ چڑھاتے ہیں جنہیں دوبارہ دھوکا نہ دیا جا سکتا ہو . جبکہ ہم تو جب تک نیا دھوکا کھا نہ لیں پرانا ہضم ہی نہیں ہوتا تو گلہ کریں تو کس سے کریں اور کیوں کریں ؟
تحریر : ممتاز ملک