حکومت نے احتساب قانون میں ترمیم کیلئے آرڈیننس جاری کردیا جس کے تحت پلی بارگین اور رضاکارانہ رقم کی واپسی کےلئے عدالت کی منظوری لازمی ہو گی‘کرپشن میں ملوث افراد تاحیات سرکاری ملازمت اور عوامی عہدے کے لئے نااہل ہو جائیں گے‘ترمیمی آرڈیننس کا
فوری نفاذ ہو گا اور پیر کو آرڈیننس سینیٹ اجلاس میں پیش کر دیا جائے گا۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے وزیر اعظم کی قائم کردہ قوانین جائزہ کمیٹی کے ارکان وزیر قانون وانصاف زاہد حامد ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت انوشہ رحمٰن ، وزیر اعظم کے خصوصی معاونین بیرسٹر ظفر اورخواجہ ظہیر کے ہمراہ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کر تےہوئے کہا کہ سوئس بینکوں سے رقوم کی واپسی آسان کام نہیں‘فوجی عدالتیں دوبارہ قائم کرنے کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہو گا ۔وزیر اعظم نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے‘ اس سلسلے میں نیب آرڈیننس کی شق 25-Aکو تبدیل کیا جا رہا ہے سرکاری خزانے سے لوٹی گئی رقم کی رضا کارانہ واپسی یا پلی بارگین پر ایک ہی سزا کاطریق کار اپنایا جائے گا۔ رقم کی رضا کارانہ واپسی چیئر مین نیب کی صوابدید تھی جو اب ختم کردی گئی ہے اور پلی بارگین کی طرح رقم کی رضا کارانہ واپسی کے عمل کے لئے بھی احتساب عدالت کی منظوری ضروری ہو گی‘ سزائوں کو انتہائی سخت کر دیا گیا ہے۔اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ نئے ترمیمی قانون کا اطلاق ماضی کے کرپشن کیسز پر نہیں ہوگا بلکہ یہ قانون آئندہ کے لئے ہے ‘ انہوں نے کہاکہ بل کے ذریعے معاملہ تاخیر کا شکار ہو سکتا تھا اس لئے حکومت نے کرپشن کے فوری خاتمے کیلئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے‘وزیرا عظم نے جائزہ کمیٹی کی تجاویز کی منظوری دے دی ہے‘کوئی پاکستانی ناجائز اثاثے منتقل نہیں کر سکےگا‘ سوئس بنکوں سےرقم کی واپسی کیلئے اطلاعات کے تبادلے کا معاہدہ طے پاگیا‘104ملکوں نےمعاہدہ طے کیا ہے جس کے تحت 104ممالک سے پاکستان کی رقم و اپس لاسکیں گے۔‘سوئس پارلیمنٹ کی منظوری کےبعد ہی سوئس بنکوں سےناجائز پاکستانی رقوم کی واپسی کے معاہدے پر عمل درآمد ہوگا‘سوئس بنکوں سے رقوم کی واپسی آسان کام نہیں ، رقم کی واپسی کیلئے ہر فرد کے حوالے سے معلومات دینا ہونگی ‘پچھلے دسمبر کےمقابلے میں خام تیل میں 43فیصد اضافے کے باوجود نئے ٹیکس لگانے کا ارادہ نہیں ‘ٹیکس آڈٹ کیلئے جن افراد کےنام نکلے ان میں اسپیکر اور حمزہ شہباز بھی شامل ہیں۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں دوسال کے لئے قائم کی گئی تھیں یہ مدت ختم ہو گئی ہے‘ فوجی عدالتیں دوبارہ قائم کرنے کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہو گا ‘دہشت گردی کی وجہ سے ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا رہا جس سے نمٹنے کیلئے فوجی عدالتیں بناناپڑیں ‘ فوجی عدالتوں سے فائدہ بھی ہوا ۔انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرف عضب ایک شعوری فیصلہ تھا ۔ ہمیں اندازہ تھا کہ اس سے خزانے پر کتنا بوجھ پڑےگا اور لوگوں کی نقل مکانی ہو گی لیکن آپریشن ضروری تھا ۔