counter easy hit

نئے امریکی صدر کی خوشگوار خارجہ پالیسی

اس میں تو کسی کو بھی شک نہیں کہ امریکی صدر بش  نے عراق کو تہس نہس کر دیا  وہ ری پبلکن پارٹی کے رہنما تھے اور موجودہ صدر بھی اسی پارٹی کے ہیں۔ امریکی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک پارٹی عام طور پر دو بار حکومت کرتی ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک پارٹی کو پورے دس برس کے لیے حکومت دیتی ہے۔ صدر جارج بش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا مگر ایسا کبھی نہ ہوا کہ آنے والے صدر کی پالیسی جانے والے کے بالکل برعکس ہو۔ اگر جارج بش نے عراق کو شرق اوسط کا کمزور ترین ملک بنا دیا ہو تو آنے والے نے اس درد کا کوئی مداوا کیا ہو۔

عراق جنگ میں 20 لاکھ انسانی جانیں گئیں اور صدر صدام حسین کے قتل کے بعد ایسا نہیں کہ امن ہو گیا ہو۔ وہاں پر داعش کی حکمرانی کو اسرائیل کی حمایت سے کھڑاکر دیا گیا پورے عراق کے کم و بیش 70 فیصد علاقے پر دیکھتے دیکھتے قبضہ ہو گیا کیونکہ صدر صدام کی فوج ختم ہو چکی تھی۔ اس خلا میں صدام حسین کی مخالف عرب حکومتوں نے اسرائیل اور امریکا کے ایما پر داعش کو بھاری اسلحے سے لیس کیا اور پورے عراق پر دھاوا بول دیا۔ بغداد، نجف،کربلا اورکردوں کے علاقے کو چھوڑ کر تمام عراق پر داعش کی حکومت قائم ہوگئی۔ انھوں نے اپنے مذہبی خیالات کے مخالفین کو بڑے پیمانے پر تہہ تیغ کر دیا عراق کی حکومت محض بغداد تک محدود رہ گئی۔ اس حکومت نے عراق میں اولیا اور انبیا کی قبروں کی بے حرمتی اور کھدائی کی، عراقی تہذیب کے قدیم نوادرات کو مغربی ملکوں کو فروخت کیا اور عراقی تیل کو بھی سستے داموں فروخت کیا گیا جس سے تیل کی قیمت ارزاں ہوئی اور قیمتوں میں استحکام نہ رہا۔

پاکستان اور بھارت نے اپنے عوام کو خوب لوٹا جب کہ پوری دنیا میں پٹرول کی قیمتیں آدھی قیمت سے بھی کم رہیں مگر پاکستان میں تیل کے نرخ میں تھوڑا تھوڑا مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور حکمران موقعے سے فائدہ اٹھاتے رہے اور عالمی پیمانے پر عرب ممالک کی پراکسی وار میں امریکی موقف کی حمایت کرتے رہے۔ اوباما حکومت جب آئی تو توقع تھی کہ ان جنگوں میں کمی آ جائے گی مگر لیبیا میں امریکا اور ان کے اتحادیوں نے کرنل قذافی کا نام مٹا دیا، البتہ لاہور میں ان کے نام کا اسٹیڈیم موجود ہے۔ لیبیا میں پوری دنیا کے جنگجو جمع ہیں اور امریکی ڈیموکریٹ اب اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں جس میں برطانیہ بھی شامل ہے بقول غالب:

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

مگر حیرت ہوتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کر رہے تھے تو ان کا یہ کہنا کہ امریکا اپنی جارحانہ اورغلبے کی سیاست ترک کر دے گا اور ملک میں اصلاحی کاموں پر توجہ دے گا۔ دنیا میں امن کا فروغ ہوگا اور اسلحے کی دوڑکو بند کر دے گا۔ غیر ملکی تنازعات کا خاتمہ بلکہ کشمیرکے مسئلے کا حل بھی اس میں شامل ہے۔ امریکا دنیا کے اکثر سیاسی طور پر کمزور ممالک میں حکومت کا تختہ الٹتا رہا ہے اسی سلسلے میں مصر کو سرفہرست دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنے من کی حکومت کو وہ چلا رہا ہے اور نہایت چابکدستی سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جب کہ اپنی پسند کی جمہوری حکومتوں کو دوام بخشتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ غیر ممالک میں اب حکومتوں کا تختہ الٹنے سے گریزکرے گا اور اپنی سیاسی حکمت عملی کو نوآبادیاتی طرز پر نہیں چلنے دے گا۔

عالمی پیمانے پر تو بڑی اچھی اچھی باتیں کی گئیں ہیں مگر اس پر کیا عمل ممکن ہے؟ کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس، چین اور ان کے ہمنوا ممالک امریکا اور برطانیہ کو سامراجی ملک کے نام سے پکارتے رہے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ نعرے ختم ہوئے اور سرد جنگ کا دور جاتا رہا، امریکی امداد کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اقتصادی امداد دے کر سیاسی فوائد حاصل کرتا رہا ہے افغانستان میں جنگ کی آگ اس کی ہی برپا کی ہوئی ہے اور پاکستان کی سیاسی ترقی کو نابود کرنے میں امریکا کا بڑا ہاتھ ہے مگر امریکی پالیسی کے یو ٹرن سے امریکی معیشت کس طرح ترقی کرے گی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ امریکی اسلحہ سازی کی دوڑ ہی امریکی معیشت کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہے، علاقائی جنگیں امریکا کی معاشی توانائی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں۔ اسی لیے جب ڈونلڈنکس اپنی پریس بریفنگ دیتے ہیں تو امریکی میڈیا انتہائی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے بلکہ بعض الزامات ان پر یہاں تک لگائے گئے کہ صدر پیوٹن نے ان کو انتخابات جتوانے میں سائٹ ہیک کر کے انتخابات کے نتائج الٹ پلٹ کر دیے۔

اس لیے اب تک امریکا میں بے یقینی کی سی کیفیت ہے جیسا کہ امریکا میں کبھی ایسا نہ ہوا اکثر لوگوں نے تو نتائج کو تسلیم کرنے سے ہی انکارکر دیا اور ہفتوں ٹرمپ ٹاور کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔ اور پاکستان کا میڈیا تو سی این این اور بی بی سی ہی سے خبریں مستعار لیتا رہا ہے اس لیے اس کا انداز بھی ایسا ہی تھا کہ ہیلری جیتی ہی جیتی اور پاکستان کی وزارت خارجہ بھی ایک سکتے کے عالم میں رہی کیونکہ ٹرمپ سے روابط کی کوئی پالیسی تشکیل نہ دی گئی اسی لیے پاکستان کے مشیر خارجہ جناب طارق فاطمی امریکا میں ہفتوں قیام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ تک رسائی ملے۔ یہ صورتحال نہ صرف بیرونی دنیا بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی کافی پریشان کن ہے کہ واقعی جو کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں وہ نہ صرف ڈیموکریٹس بلکہ ری پبلکن پارٹی کے لیے بھی کافی خطرناک ہے کیونکہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس میں کوئی خاص فرق نہیں بلکہ خارجہ پالیسی میں اور ٹیکسوں کی پالیسی میں تھوڑا بہت فرق ہے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

اصل صورتحال تو ڈونلڈ ٹرمپ کے وہائٹ ہاؤس پر قبضہ جمانے کے بعد ہی سامنے آئے گی کیونکہ یہ ان کے عمل کا امتحان ہو گا۔ ویسے اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹروں کا جائزہ لیا جائے تو اس کا علم ہو جائے گا کہ امریکی معیشت کی دوڑ میں جو ریاستیں نسبتاً کمزور تھیں وہاں ٹرمپ نے لیڈ لی ہے اور وہ لوگ تعلیم میں بھی پیچھے ہیں مگر جاہل نہیں البتہ وہ ایشیائی لوگوں کے مقابلے میں معاشی ابتری کا شکار ہیں اور امریکا میں چھوٹے کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ٹرمپ کو ذریعہ نجات سمجھتے رہے ہیں اور ایشیائی مہاجرین بڑی پوسٹوں پر نوکری کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں اور انجینئروں کی اکثریت کا تعلق پاکستان یا بھارت سے ہے لہٰذا ٹرمپ نے جن امور پر زیادہ اثر ڈالا ہے وہ خود ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک اور الزام جو مسلسل امریکی میڈیا ڈونلڈ ٹرمپ پر لگاتا رہا ہے کہ وہ روس کی حمایت سے امریکا پر قابض ہو گئے ہیں ایسے الزامات خود امریکا اور خصوصاً امریکی اتحادیوں کے لیے بہت خطرناک ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی پر کوئی اعتماد کرنے پر تیار نہ ہو گا۔ خصوصاً شرق اوسط میں ایک بہت بڑا بھونچال آنے کو ہے کیونکہ ان کا دفاعی بازو تو دراصل امریکا کی پالیسیاں رہی ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website