counter easy hit

تحمل کا مظاہرہ کریں

سلیم یزدانی

آج پاکستان جس خطر ناک اور نازک دور سے گزر رہا ہے، یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے اپنی غلط روش ناقص عمل اور بدتربیریوں سے پاکستان کے دشمنوں اور برا چاہنے والوں میں اضافہ کیا ہے۔ صحیح سمت میں تدبیر اور کوشش نہ کرنا فرد اور قوم دونوں کو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتابلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میںپڑجاتی ہے۔اسی کیفیت کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کو بری طرز حکمرانی نے اس حال تک پہنچایا ہے ہم بار بار ایک ہی صورت حال سے دوچار ہوتےرہتےہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اور انتظامی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے حکومت کے ستون ہل رہے ہیں۔اگر آج عوامی جمہوریہ چین ایک ڈھال نہ بن گیا ہوتا تو پاکستان کو اپنی سلامتی محفوظ کرنا مشکل ہو جاتا۔ ایک ایسی صورت حال قدرت نے پیداکردی ہے کہ پاکستان اورچین کی سلامتی کے مفادات ایک جیسے ہو گئےہیں اور اس وقت پاکستان میں جو انتشار کی اور افتراق کی صورت ہے اس سے پاکستان کے دوستوں میں بھی تشویش بڑھ رہی ہے۔ ہماری بدتدبیری کی وجہ سے افغانستان بھی پاکستان کے مخالف سمت میں کھڑا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں موجودہ حکومت سمیت پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کے مطابق فیصلے نہیں کئے گئےاور وہ کرتے کیسے اس لئے کہ وہ اس عالمی سازش سے بے خبر تھے اور اب بھی ہیں جو امریکہ اور مغربی ممالک کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ ترکی کا بھی صفایا ہو چکا ہوتا اگرروس ترکی کو بر وقت سازش سے آگاہ نہ کر دیتا لیکن اب بھی ترکی خود کو پوری طرح محفوظ نہ سمجھے اب امریکہ اسے شام میں پھنسا کر ایران کے مقابلے میں لانا چاہتا ہے۔انسان کی اپنے بارے میں لاعلمی اپنے مفادات کے بارے میں لاعلمی اسے کسی بھی بڑے نقصان سے دوچار کر سکتی ہے اور ایسابار بار ہو سکتائے لگتا تو یہ تھا کہ جو کچھ اسلام آباد سے شروع ہوا ہے یہ آسانی سے ختم نہیں ہوگا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ماضی میں صدارتی نظام رہا وہ ناکام ہو گیا۔ پھر پارلیمانی نظام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن قومی اور عوامی نقطۂ نظر سے یہ بھی بار بار ناکام ہوا ہے وجہ اس کی ایک ہی کہ ملک میں کوئی ادارہ اپنی حدود میں ر ہ کر کام نہیں کرتا ذاتی اور سیاسی مفادات اور دبائو کی خاطر ادارے حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ نظام کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ نوے فیصد عوام غربت میں جکڑے ہوئے ہیں تعلیم کی شرح افسوناک حد تک کم ہے۔ دولت مند اشرافیہ نے عام لوگوں کے آگے بڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے راستے مسدود کر دیئے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں قانون اور آئین کی بالادستی ضروری ہے اگر نظام کو قانون اور آئین کے مطابق نہیں چلایا جائے گا تو وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہم دیکھتے آرہے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں آئین کی بالادستی کے بغیر اور قانون کی حکمرانی کے نہ ہوتے ہوئے انصاف نہیں ہو سکتا عدلیہ کی آزادی ہو گی تو حکمرانوں میں خوف ہو گا، وہ غلط کام کرنے اور کرپشن سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں گے۔ آجکل ہمارے سیاستدان وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں جوزبان استعمال کررہے ہیں وہ پارلیمانی جمہوریت کا لہجہ نہیں ہے یہ تو سیاسی انتہا پسندی کا رویہ ہے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں کہ جب پاکستان حالت جنگ میں ہے ۔یہ کیسے سیاستداں ہیں یہ کیسے لیڈر ہیں جن کوئی نظر نہیں آرہا کہ بھارت جارحیت پر آمادہ ہے اور پاکستان صبر و تحمل سے کام لے رہا ہے ایسے میں سپریم کورٹ پر عوام کی نظریں ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ ایسا فیصلہ آئے جس سے عدل کی تاریخ بن جائے۔عدل کا ایسا ماڈل سامنے آئے کہ وہ صدیوں رہنمائی کرتا رہے اور عدل کا ڈنگا پٹ جائے۔ کوئی حکومت پارلیمانی حد سے تجاوز کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔سیاست کا احتجاجی ماڈل منفی رجحانات کو جنم دیتا ہے۔ جو ریاست اور معاشرے کیلئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ایک صورت یہ ہے کہ سول سوسائٹی کو استعمال کیا جائے اور قوم کو منفی رجحان رد کرنے اور مثبت رویوں کو آگے بڑھانے کا سبق دیا جائے تاکہ ایک کھلے معاشرے کی بنیاد پڑ سکے۔

 

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website