لاہور (ویب ڈیسک ) اس سہولت کے تحت انہیں ایک پلنگ ‘ میز ‘ کرسی اور پنکھا بھی دیاگیا سردیوں میں سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں ہیٹر بھی فراہم کیا گیا وہ اکثر اوقات اپنی نگرانی پر معمور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل مجید احمد قریشی کو اپنے پاس بلا کر کہا کرتے کہ نامور مضمون نگار مرزا نعیم الرحمان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں….انہوں نے اس ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کیا ہے پاکستان کو ایٹمی پاور بنانے کے علاوہ اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا اسلامی ممالک کے پاس دولت اور تیل کا ہتھیار موجود ہے انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی وجہ سے انہیں سزا دی گئی ہے عالمی طاقتوں کو میرا عمل پسند نہیں آیا امریکہ ‘ روس تیسری دنیا کو برداشت نہیں کرتے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو کے وکلا پر ان سے ملاقات پر کوئی پابندی نہیں تھی کو جب جی چاہتا تھا ملاقات کے لیے آ جاتے ذو الفقار علی بھٹو جو لا گریجویٹ تھے اکثر اوقات مختلف نوٹس بنا کر اپنے وکلا یحییٰ بختاور ‘ حفیظ پیرزادہ اور دوست محمد اعوان کو دیتے بھٹو انتہائی ذہین انسان تھے قانون کی کتابیں انہیں ازبر یاد تھیں ذو الفقار علی بھٹو پر کوٹھری سے نکلنے پر کوئی پابندی نہیں تھی وہ سہ پہر کو ٹہلنے کے لیے نکلتے شام ہوتے ہی سیل میں چلے جاتے اکثر اوقات وہ اپنے وکلا ‘ محترمہ بینظیر بھٹو اور جیل حکام کو کہتے کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں وہ بہت جلد رہا ہو جائیں گے اور جمہوریت کی بساط لپیٹنے والے اسی سیل میں پہنچ جائیں گے۔ذو الفقار علی بھٹو نے 323دن میں اپنی صرف ایک سالگرہ منائی جس روز ذو الفقار علی بھٹو کی سالگرہ تھی اس دن پوری جیل کو دولہن کی طرح سجا دیا گیا تمام سجاوٹی سامان محترمہ بینظیر بھٹو کئی یوم پہلے اپنے ہمراہ لیکر آ ئیں جنہیں ان کے مشقتی عبد الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے سجایا اس موقع پر بینظیر بھٹو‘ بیگم نصرت بھٹو اور ان کے وکلا کے علاوہ تمام جیل کے عملے کو بھی مدعو کیا گیاجب ذو الفقار علی بھٹو نے سالگرہ کا کیک کاٹا تو اس موقع پر موجود تمام افراد نے کورس کے انداز میں ’’ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ‘‘ گایا کورس کے انداز میں گائے جانے والے ان فقروں کو سن کر جیل میں قید دیگر قیدیوں نے بھی اپنی اپنی بارکوں میں باآواز بلند ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گانا شروع کر دیا جو کافی دیر تک گایا جاتا رہا ذو الفقار علی بھٹو کی پہلی بیگم ‘ امیر بیگم‘ عاشق بھٹو اور ممتاز بھٹو نے 323 دنوں میں چند ملاقاتیں کیں ان کی پہلی بیگم امیر بیگم نے انہیں ملاقات میں پڑھنے کے ایک خوبصورت تسبیح دی جنہیں انہوں نے مالا سمجھ کر گلے میں ڈال لیا اور یہ تسبیح ان کے گلے میں تقریبا 300دن تک رہی سزائے موت سے قبل اس تسبیح کو ان کے گلے سے اتا ر لیا گیا مجید احمد قریشی جو ریٹائرمنٹ کے بعد ان دنوں لاہور میں وکالت کر رہے ہیں نے بتایا کہ وہ اس امر کا حلف دینے کے لیے تیار ہیں کہ کسی فوجی یا جرنیل نے ذو الفقار علی بھٹو سے ملاقات نہیں کی صرف کرنل رفیع جو سیکیورٹی انچارج تھے ایک آدھ دفعہ ان سے ملاقات کے آئے جبکہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ جنرل چشتی نے ان پر تشدد کیا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو شراب کے عادی تھے اور وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزارتے تھے بلکہ جیل میں شراب منگوانے پر سخت پابندی ہے اور نہ ہی ایسا ممکن تھا کہ کوئی چھپا کر انہیں جیل میں شراب پہنچا دیتا سیکیورٹی ایجنسیوں کو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں ارسال کی جاتی تھیں جن میں ان کے روز مرہ کے معمولات بھی شامل تھے کہ بارے میں آگاہ کیا جاتا تھا ہاں البتہ ذوالفقار علی بھٹو سیون اپ یا پیپسی پیا کرتے تھے اور کافی کے بے حد رسیا تھے تسبیح کو مالا اورقران پاک کو مقدس کتاب سمجھ کر انہوں نے ہمیشہ پاس رکھا مگر جیل میں انہیں قران پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیاوہ اکثر اوقات کہتے کہ میرا اللہ پر کامل یقین ہے نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور انہوں نے قادیانیوں پر پابندی عائد کی کہ وہ خود کو مسلمان نہیں لکھ سکتے وہ دکھاوے کا مولوی نہیں بننا چاہتے خدا وندکریم دلوں کے بھید خوب جانتا ہے جیل سے رہا ہونے کے بارے میں ہر وقت پر امید رہنے والے ذو الفقار علی بھٹو اس وقت انتہائی غمزدہ ہو گئے جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان سے مسترد ہو گئی ہے بلکہ وہ یہ خبر سنتے ہی سکتے میں آ گئے اپیل خارج ہونے کے دس یوم بعد انہیں پھانسی دیدی گئی سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد انہوں نے شیو کرنا بھی چھوڑ دی وگرنہ وہ 313دن صبح سویرے اٹھتے سب سے پہلے شیو کرتے نہاتے ‘ پینٹ کوٹ پہن کر بیٹھ جاتے یا مطالعہ شروع کر دیتے شیو چھوڑنے کی وجہ سے انکی براؤن داڑھی نکل آ ئی جس میں وہ انتہائی خوبصورت نظر آنے لگے بھٹو کے وکلانے ملاقات کے دوران انہیں کہا کہ چیئرمین صاحب صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کر دیں مگر یہ فقرہ سنتے ہی وہ انتہائی غصے میں آ گئے اور کہا کہ جس شخص نے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے وہ اس سے رحم کی بھیک نہیں مانگیں گے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اسلامی ممالک انہیں جلد آزاد کرا لیں گے انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل خارج ہونےاور صدر پاکستان سے رحم کی اپیل نہ کرنے کے باوجود انہیں قوی امید تھی کہ وہ آزاد ہو جائیں گے اور ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ماضی میں کوئی ایسی مثال موجود ہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل خارج ہونے کے فوری بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کو واپڈا ریسٹ ہاؤس ہالہ میں نظر بند کر دیا گیا جبکہ پھانسی سے قبل آخری ملاقات کے لیےدونوں ماں بیٹی کو اکٹھے ملاقات کے لیے لایا گیا تو بھٹو یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ آج ماں بیٹی کو اکٹھے کیوں ملاقات کے لیے لایا گیا ہے بلکہ ان پر یہ خوف بھی طاری ہو گیا کہ ان کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے اب وقت کے حکمران کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں اپیل خارج ہونے کے فوری بعد ذوالفقار علی بھٹو سے بی کلاس کی سہولت واپس لے لی گئی ان کے سیل سے کرسی ‘ میز ‘ اور پلنگ وغیرہ اٹھا لیے گئے وہ دس یوم تک فرش پر سوتے رہے نگرانی پر معمور مجید احمد قریشی سے انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا انکی پنکی اور نصرت بھٹو سے یہ ان کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے تو مجید احمد قریشی نے انہیں بتایا کہ جی ہا ں چیئرمین صاحب آ پ کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو چکے ہیں یہ آ پ کی آخری ملاقات ہے آپ کے وکلا نے آپ کی سختی سے کی جانے والی ہدایت کے باوجود صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کر دی گئی مگر انہوں نے بھی اس رحم کی اپیل کو مسترد کر دیا ہے صبح آپ کو پھانسی دے دی جائے گی یہ فقرے ادا کرنے کی دیر تھی کہ پنکی اور بیگم نصرت بھٹو نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا انکے رونے کی آواز سے پوری جیل گونج اٹھی اس وقت ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں تقریبا 80موت کے قیدیوں سمیت 12سو قیدی اور حوالاتی موجود تھے ماں بیٹی کے رونے کے اس منظر کو دیکھ کر موقع پر موجود عبد الرحمان مشقتی ‘ مجید احمد قریشی اور دیگر عملہ بھی اس رونے میں شامل ہو گیا ان کے بھی آنسو نکل آئے حتی کہ پوری جیل کے ملازمین کے علاوہ جیل کے حوالاتی ‘ قیدی بھی اونچی آواز میں رونا شروع ہو گئے جیل میں موجود قیدیوں کو یہ علم ہو گیا تھا کہ جیل میں لایا جانے والا مہمان جو اس ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے کی آخری ملاقات کرائی جا رہی ہے یہ منظر اس قدر دردناک اور کربناک تھا کہ جیل کی درو دیوار بھی روتے ہوئے محسوس ہونے لگی کافی دیر تک رونے دھونے کا یہ سلسلہ جاری رہا ذو الفقار علی بھٹو بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور جیل کی دیواروں سے اپنا سر پٹخنے لگے محترمہ بینظیر بھٹو مجید احمد قریشی کی منت سماجت کرنے لگیں ان کے سامنے انہوں نے ہاتھ باندھ دیے کہ خدا کے واسطے آج ان کی حوالات کے لوہے کا جنگلا کھول دو انہیں پایا کو سینے سے لگا لینے دو مگر یہ جیل قوانین کے خلاف تھا محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد کا ہاتھ جو انہو ں نے جنگلے سے باہر پیار دینے کے لیے نکالا تھا کو پکڑ کر چومتی رہیں جب کہ بیگم نصرت بھٹو بار بار بے ہوش ہو جاتیں جنہیں پانی پلا کر ہوش میں لایا جاتا ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس آخری ملاقات کے دوران ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ماں بیٹی کی آہ زاری سے زمین اور آسمان پھٹ جائے گا جیل حکام کو سختی سے اس امر کی ہدایت تھی کہ وہ احکامات کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں وگرنہ انہیں بھی اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ملاقات کا وقت ختم ہوتے ہی مجید احمد قریشی نے انہیں کہا کہ محترمہ اب آ پ کی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے اور انہیں ایک منٹ بھی زائد نہیں دیا جا سکتا لہذا زبردستی کیے بغیر وہ خود ہی جیل سے باہر نکل جائیں باپ ‘ بیٹی اور اہلیہ کی جدائی کا وقت دیدنی تھا محترمہ بینظیر بھٹو ‘ بیگم نصرت بھٹو ‘ کو زبردستی پکڑ کر جیل حکام نے مرکزی دروازے کی طرف لے جانا شروع کیا تو وہ دونوں ماں بیٹی پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھیں ان کے قدم انکا ساتھ نہیں دے رہے تھے انہیں گھسیٹ کر مرکزی دروازے تک پہنچایا گیا تو اچانک محترمہ بینظیر بھٹو جیل حکام سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ان کے حصار کو توڑتی اور بھاگتی ہوئی ذو الفقار علی بھٹو کے سیل تک پھر پہنچ گئیں اور دیوانہ وار لوہے کے جنگلے کو چومنے لگیں جیل حکام ان کے پیچھے بھاگے اور محترمہ بینظیر کو دوبارہ پکڑ لیا تو انہوں نے مضبوطی سے لوہے کے جنگلے کو پکڑ لیا ذو الفقار علی بھٹو اس موقع پر انتہائی غصے میں یہ کہتے رہے کہ خبردار کسی نے پنکی کو ہاتھ لگایا یا ان پر تشدد کیا اگر یہ انکی آخری ملاقات ہے تو یہ ادھوری ملاقات کیوں ہے جب تک ان کی بیٹی اور اہلیہ خود جیل سے باہر نہیں جاتیں انہیں ہرگز جیل سے باہر نہ نکالا جائے مگر ان کے احکامات اور مطالبات بالکل بے معنی تھے ان کی کوئی اہمیت نہ تھی اور ماں بیٹی کو زبردستی جیل سے باہر نکال دیا گیا جیل کے باہر کھڑے ان کے محافظوں نے انہیں گاڑی میں بٹھایا جو گھر واپس جاتے ہوئے ماں بیٹی گاڑی میں ہی بے ہوش ہو گئیں اور انہیں دوبارہ واپڈا ریسٹ ہاؤس سہالہ میں نظر بند کر دیا گیا جیل میں موجود قیدی ساری رات سو نہ سکے اور مختلف بیرکوں سے کبھی رونے کبھی درود شریف اور کبھی نعتوں کی آواز آتی رہی پھانسی کی رات زبردست بارش ہوئی اور جیل میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہو گیا پھانسی سے قبل ذو الفقار علی بھٹو کے گلے کی پیمائش کی گئی ڈاکٹر نے انکا طبی معائنہ اور رپورٹس مرتب کیں پھانسی کی رات ذو الفقار علی بھٹو نے دس روز سے بڑھی ہوئی داڑھی کی شیو کی نہا دھو کر کریم کلر کی شلوار پہنی اور سونے کی بجائے کوٹھڑی میں بیٹھ کر نوٹس لکھتے رہے رات گیارہ بجے مجید احمد قریشی نے موت کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولاتو ذو الفقار علی بھٹو انتہائی غمزدہ اور غصے میں دکھائی دے رہے تھے اچانک کھل کھلا کر ہنس دیے اور کہا میں نہیں کہتا تھا کہ مجھے پھانسی نہیں دے سکتے تم میرے لیے کوئی خوشخبری لائے ہوں نا مگر مجید احمد قریشی نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہاکہ نہیں چیئرمین صاحب آپ کے لیے کوئی خوشخبری نہیں لگتا ہے اس عارضی دنیا میں آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے آپ اٹھیں پھانسی کے لیے تیار ہو جائیں آپ نے 4اپریل 1979کا سورج نہیں دیکھنا بھٹو کو وارننگ اور تیاری کا حکم دینے کے بعد وہ انہیں پھانسی دینے کے انتظامات مکمل کرنے کے لیے چلے گئے اسلامی دنیا کے لیڈر منتخب وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے تارا مسیح کو بلایا گیا تھا جو اس امر سے بالکل بے خبر تھا کہ آج اس نے ملک کے معزول وزیر اعظم کو پھانسی دینی ہے اپنے کمرے میں نیند پوری کر رہا تھا اسے یہ جاننے کی بھی کوئی غرض نہ تھی کہ اس کے ہاتھوں سے کس بندے کی جان جائے گی اس رات جیل میں غیر معمولی حفاظتی اقدامات کر لیے گئے تھے جیل کی درو دیواروں پر طیارہ شکن توپیں نصب کر دی گئیں رات ایک بجے کے قریب جب جیل کا عملہ انہیں پھانسی گھاٹ لے جانے کے لیے ان کے سیل کے قریب پہنچا تو ذو الفقار علی بھٹو نے بھاری تعداد میں لکھے جانے والے نوٹس کو جلا دیا جلانے کے لیے ماچس کی ڈبی ان کے مشقتی عبد الرحمان نے انہیں دی ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی سے قبل اپنی نہایت قیمتی رولیکس گھڑی جو انہیں شاہ فیصل نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد پر تحفہ میں دی تھی اور یہ گھڑی شاہ فیصل نے اپنی کلائی سے اتار کر انہیں گفٹ کی تھی کو اپنے مشقتی عبد الرحمان کو دے دی مجید احمد قریشی جیل عملہ کے ہمراہ جب انہیں ان کے سیل سے نکالنے کے لیے پہنچے تو ذو الفقار علی بھٹو فرش پر لیٹ گئے اور کہا کہ میں ہرگز نہیں جاؤں گا انگریزی میں ایک فقرہ بار بار دوہرانے لگے کہ انہیں مقابلہ کر کے لے جانا ہو گاجب یہ صورتحال جیل حکام نے دیکھی تو پریشان ہو گئے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ انہیں زبردستی لے جایا جائے گا اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک اسٹریچر منگوا لیا مجید احمد قریشی نے نہ چاہتے ہوئے بھی جیل ملازمین کے ساتھ مل کر ان کے ہاتھ پشت پر مضبوطی کے ساتھ باندھ دیے اس دوران ذو الفقار علی بھٹو شدید مزاحمت کرتے رہے انہیں اسٹریچر پر ڈال کر جب پھانسی گھاٹ پر لے جایا جانے لگا تو انہوں نے مزاحمت اچانک بند کر دی اور زارو قطار باآواز بلند رونا شروع کر دیا اور انگریزی میں کہا کہ ان کے بعد نصرت اور پنکی اکیلی رہ جائیں گی پھانسی گھاٹ پر جب انہیں اسٹریچر سے انہیں اتارا گیا تو خلاف توقع وہ کھڑے ہو گئے اور خود چل کر موت کے کنویں کے اوپر مخصوص دائرے پر کھڑے ہو گئے مجید احمد قریشی نے ذو الفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین صاحب پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈال لیں بزدلی نہ دکھائیں اور موت کے سینے سے لگا لیں خلاف معمول انہیں کریم کلر کی شلوار قمیض بھی نہ اتارنے دی گئی ایسا لگتا تھا جیسے اس وقت کے حکمرانوں کو انہیں پھانسی دینے کی جلدی ہے اور جلد از جلد وہ دنیا کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے بے چین ہیں ذو الفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا گیا گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنے سے قبل ان کے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ڈال دیا گیا تارا مسیح کو پھانسی گھاٹ پر پہنچنے کے بعد یہ علم ہوا تھا کہ آج اس کے ہاتھوں ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانی ہے پھانسی کے تختے پر کھڑا ہونے کے بعد ان کے دونوں پاؤں کو رسی کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا گیا اس موقع پر ذو الفقارعلی بھٹو نے جو آخری فقرے کہے تھے وہ یہ تھے کہ ان کے چہرے سے کالا نقاب ہٹا دیا جائے مگر ایسا ممکن نہ تھا پھانسی گھاٹ پر ذو الفقار علی بھٹو کی نظر قریب کی پڑے تابوت اور کفن پر پڑی تو انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ حقیقت ہے اس وقت کے جیل کے قوانین کے برعکس ذو الفقار علی بھٹو کو رات دو بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا پھانسی کے عمل کے موقع پر ڈاکٹر محمد اصغر‘ آئی جی جیل خانہ جات چوہدری نذیر احمد اختر ‘ سپرٹینڈنٹ جیل چوہدری یار محمد دویانہ ‘ خواجہ غلام رسول ڈپٹی سپرٹینڈنٹ ‘ مجید احمد قریشی کاظم بلوچ‘ چوہدری عارف ‘ ہیڈ وارڈن‘ اور آرمی کی طرف سے کرنل رفیع بھی موجود تھے ذو الفقار علی بھٹو کا جسم تین منٹ تک پھانسی گھاٹ میں پھڑکتا رہا اور جلد ہی ان کی روح پرواز کر گئی مگر جیل قوانین کے مطابق نصف گھنٹے تک انکی نعش رسے سے جھولتی رہی نصف گھنٹے بعد ڈاکٹر محمد اصغر کنویں میں اترے اور ان کی نبض چیک کرنے کے بعد موت کی تصدیق کا فارم پر کرنے کے بعد چلے گئے جیل حکام نے انہیں جیل میں ہی غسل دینے کا اہتمام کر رکھا تھا ان کی نعش کو حافظ محمد حیات نے غسل دیا اور کفن پہنا کر تابوت میں رکھ دیا فوجی حکام تابوت لیکر چکلالہ ائیر بیس روانہ ہو گئے نیلا دھاری دار سوٹ پہن کر 323دن قبل جیل کے مرکزی دروازے سے داخل ہو کر آنے والا مہمان سفید کفن پہنے جیل سے رخصت ہو چکا تھا ان کی 323دن مسلسل نگرانی کرنیوالے اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ جیل مجید احمد قریشی بھٹو کا سامان جس میں انکی شادی کی انگوٹھی ‘ گلے میں ڈالی ہوئی تسبیح ‘ قران پاک ‘ جائے نماز‘ کراکری ‘ شلوار قمیض ‘ اور پشاوری چپل لیکر واپڈا ریسٹ ہاؤس سہالہ پہنچے تو پہلے سے نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کے ہاتھ میں بھٹو کا سامان دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا بینظیر بھٹو نے مجید قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاپا کو رخصت کر کے آ گئے ہو کیا میرے پاپا نے حوصلہ کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما رو رو کر دونوں ماں بیٹی کی ہچکیاں بندھ گئیں بینظیر بھٹو اپنے پاپا کی نشانیاں دیکھ کر انہیں دیوانہ وار چومتی اور روتی رہیں دونوں ماں بیٹی دو گھنٹے تک ان سے بھٹو کے آخری لمحات کے بارے میں پوچھتی رہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو نے پھانسی کی رات مجید احمد قریشی کو اپنا ایک خوبصورت رومال جو انہیں ان کی پہلی بیگم امیر بیگم نے دیا تھا اور جس پر خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کڑھائی کرتے ہوئے لفظ بی کنندہ کیا ہوا تھا دیا جو ابھی بھی ان کے پاس محفوظ ہے۔