کراچی: سینئر تجزیہ کار مظہر عباس، ریما عمر، حفیظ اللہ نیازی، حسن نثار، ارشاد بھٹی اور بابر ستار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے امن عمل کی پذیرائی ہو رہی ہے، پاکستان کا امیج بہتر اور بھارت کا خراب ہونا مودی کیلئے مقام عبرت ہے، بھارتی اپوزیشن، میڈیا عوام سب پاکستان پر حملے کا ثبوت مانگ رہے ہیں یہ خوشی کی بات ہے، ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی نے خود اپنے آپ کو زخم لگا لیا ہے، بھارتی میڈیا بتائے تین سو لوگ مارے جانے کے دعوے کی تصدیق کیے بغیر کیوں پاکستان کیخلاف میڈیا وار شروع کی، قومی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں عسکری تنظیموں کیخلاف کارروائی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، قانون میں جھوٹی گواہیوں پر 3 سے 14 سال تک کی سزائیں ہیں لیکن کبھی ان پر عمل نہیں ہوا۔ پولیس کے خوف کی وجہ سے لوگ سچی گواہی نہیں دیتے خوف ہوتا ہے کہ پولیس دہشتگرد یا مجرم کے ساتھ نہ مل جائے، گواہیوں پر انحصار کم کر کے جدید طریقہ کار اختیار کرنا ہوں گے۔ سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگنے والوں کو مودی حکومت کا غدار کہنا، کیا بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے آنے پر پاکستان کو خوش ہونا چاہئے؟
ارشاد بھٹی نے کہا کہ خوش ہونا چاہئے، بھارتی اپوزیشن، میڈیا عوام کا پاکستان پر حملے کا ثبوت مانگنا پاکستان کیلئے خوشی کی باتیں ہیں، پہلی بار دنیا میں پاکستان کو امن پسند ملک کے طور پر سمجھا جا رہا ہے، مودی بیک فٹ پر چلا گیا ہے اسی لئے غداری کے فتوے بانٹ رہا ہے۔ حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ اوآئی سی کی طرف سے انڈیا کو دہشتگرد ملک قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے، بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے امن عمل کی پذیرائی ہو رہی ہے، مودی خطرناک گیم کھیل رہا ہے جس کا خمیازہ کشمیریوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔ حسن نثار نے کہا کہ حالیہ تنازع سے پاکستان کا امیج بہتر ہونا اور بھارت کا خراب ہونا مودی کیلئے عبرت کا مقام ہے۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی نے خود اپنے آپ کو زخم لگالیا ہے، پہلے دن جوش دکھانے والے مودی دفاعی پوزیشن میں آگئے، بھارتی میڈیا بتائے تین سو لوگ مارے جانے کے دعوے کی تصدیق کیے بغیر کیوں پاکستان کیخلاف میڈیا وار شروع کی۔ بابر ستار نے کہا کہ انڈیا مودی جیسی قیادت سے خود کو تباہ کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ ریما عمر نے کہا کہ ہمیں کسی کی کمزوری پر نہیں اپنی طاقت پر خوش ہونا چاہئے، پاکستان نے امن کا جو پیغام دیا ہمیں اس پر خوش ہونا چاہئے، بھارت میں جو عدم برداشت اور جنگی جنون کا ماحول ہے اس پر تشویش ہونی چاہئے۔دوسرے سوال عسکری تنظیموں کیخلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ، کیا حکومت کیلئے فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن ہے؟ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ حکومت پاکستان اور افواج ایک پیج پر ہیں، ایسی مضبوطی کے بعد عسکری تنظیموں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی ممکن ہے۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ریاست فیصلہ کرلے تو عسکری تنظیموں کیخلاف حتمی کارروائی ہو سکتی ہے، ریاست کو پراکسی وارز سے بہت نقصان ہوا ہے، غیر ریاستی عناصر مضبوط ہوئے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے اندر ہوا۔ حسن نثار نے کہا کہ ریاست فیصلہ کرلے تو غیرریاستی عسکری عناصر کا نام و نشان مٹ جائے گا، افواج پاکستان جیسی شاندار عسکری قوت کی موجودگی میں کسی اور عسکری تنظیم کی موجودگی انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ کارروائی کا فیصلہ کئی دفعہ کیا گیا لیکن عملدرآمد نہیں ہوا، سول و عسکری قیادت متفق ہے تو غیرریاستی عناصر کو ختم کرنے کا اچھا موقع ہے۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ کارروائی کیلئے آئیڈیل وقت ہے، اس سے فائدہ اٹھا کر کارروائی کرلینی چاہئے۔ ریما عمر نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں عسکری تنظیموں کیخلاف کارروائی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ تیسرے سوال جھوٹی گواہیوں جیسے سنگین مسئلہ کا حل کیا ہے؟ ریما عمر نے کہا کہ پولیس اور پراسیکیوٹرز کی بھی ذمہ داری ہے لوگوں پر دباؤ ڈال کر جھوٹی گواہی نہ دلوائیں، پاکستان تحقیقات کے حوالے سے ابھی بھی پسماندہ ہے، گواہیوں پر انحصار کم کر کے جدید طریقہ کار اختیار کرنا ہوں گے۔ حسن نثار کا کہنا تھا کہ صرف جھوٹی گواہی دینے والوں کو نہیں بلکہ اس پورے نظام کو تیزاب سے غسل دیا جائے، تصور کریں 9 سال کے بچے کو پولیس نے چولہے پر بٹھا دیا سزا میں پولیس والوں کو صرف معطل کیا گیا۔ مظہر عباس نے کہا کہ پولیس کے خوف کی وجہ سے لوگ سچی گواہی دینے آگے نہیں آتے ہیں، خوف ہوتا ہے پولیس دہشتگرد کے ساتھ نہ مل جائے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ قانون میں جھوٹی گواہیوں پر 3 سے 14 سال تک کی سزائیں ہیں لیکن کبھی ان پر عمل نہیں ہوا۔) سینئر تجزیہ کار مظہر عباس، ریما عمر، حفیظ اللہ نیازی، حسن نثار، ارشاد بھٹی اور بابر ستار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے امن عمل کی پذیرائی ہو رہی ہے۔