تحریر:لقمان اسد
ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا جانے کس زعم میں مبتلا ہے کہ ہرآئے دن کوئی نہ کوئی حرکت وطن عزیز کے خلاف کرتا رہتا ہے۔ گائے کے پیشاب سے پیٹ بھرنے والا ہندو بنیا پاکستان کے قیام سے ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُنتاچلا آرہا ہے وہ شاید پاکستان کے ظرف اور پاکستان کے صبر کو کمزوری سے تعبیر کرتا ہے ۔آئے روز اسکے وزیر مشیر کتے کی طرح پاکستان کے خلاف بھونکتے نظر آتے ہیں انڈین ٹی وی چینلز سے بھی پاکستان کے خلاف ہروقت ہرزہ سرائی جاری رہتی ہے
جبکہ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے انڈیا کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے سے گریز کیا ہے ہندوستان کی سرزمین پر اگر ایک مچھر کا پرکٹ جاتا ہے تو اسکے وزیراعظم سمیت سینئر وزراء اورممبران اسمبلی پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کو اسکا مجرم قرار دیتے نہیں تھکتے۔ اس کے برعکس پاکستان نے انڈیا کی طرف سے کی جانے والی سازشوں کو ہمیشہ پس پشت ڈالا اور چپکے سے دفاعی ترقی کا سفر جاری وساری رکھا ہے ۔ کبھی انڈیا کے پیٹ میں پاک چائنا دوستی کے حوالے سے مروڑ اٹھتا ہے تو کبھی وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے خوفزدہ ہوکر اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتا ہے
دفاعی لحاظ سے دن بدن جاری ترقی کے پاکستانی سفر نے ہندو بنیئے کی نیندیں اُچاٹ کررکھی ہیں انڈیا کی ان تمام گھنائونی حرکات کا پس منظر یہ بھی ہے کہ سوسال تک برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت کا زخم اب تک وہ نہیں بھلایا یا شاید یہی خوف اسے ابتک بھی اندر ہی اندر چین کی نیند نہیں سونے دیتا کہ کہیں ہندو بنیئے سے دنیا کی اکلوتی اور واحد سٹیٹ ہندوستان پر پھر سے کبھی مسلمانوں کا قبضہ نہ ہوجائے۔ پاکستان میں فوجی حکومت رہی ہویا جمہوری حکومت پاکستان کی ہرحکومت نے انڈیا سے جنگ کی بجائیہمیشہ مذاکرات کو ترجیح دی۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو نے اندرا گاندھی سے مذاکرات کیے تاکہ پرانی دشمنی کو بھلاکر نئے سرے سے دوستی کی طرف ہاتھ بڑھایا جائے اور دونوں ممالک کے درمیان اچھے دوستانہ تعلقات ہوں۔بعد میں جنرل ضیاء الحق نے ایک کرکٹ میچ کے دوران اچانک جب ہندوستان کا دورہ کیا تو انکی بھی یہی خواہش تھی کہ ہندوستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور جنگ کی طرف ہمیں نہیں جانا چاہیے، میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوار میں بھی دونوں وزرائے اعظم کا رویہ انڈیا کے خلاف کبھی جارحانہ نہیں رہا۔ اسکے باوجود ہندوستان کی پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری ہے ابھی ایک عرصہ سے ہندوستان کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے
وہ وقفہ وقفہ سے سرحدپار سے پاکستانی علاقوں پر فائرنگ کرتا رہتا ہے ابھی تک پاکستان نے صبر سے کام لیا ہے گزشتہ دنوں دھوکے سے دورینجرز کے اہلکاروں کو فلیگ مارچ کی تقریب کے دوران انڈین سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے شہید کردیا جس کے بعد پاکستان کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے انڈیا کو خبردار کیا کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز رہے ورنہ اسے سبق سکھایا جائیگا، وزارت داخلہ کے اس بیان کے بعد بھارتی وزیرداخلہ نے پاکستان کو دھمکی کے انداز میں کہا کہ پاکستان اپنی اوقات میں رہے نہیں تو اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا، بھارتی وزیرادخلہ کایہ بیان چوری اور اُوپر سے سینہ زوری کے مترادف ہے۔
ہندوستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے تمام پاکستانیوں کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایوں سمیت پوری دنیا سے امن کے ساتھ اپنے تعلقات کو خوشگوار اور پرامن ماحول میں رکھنے کا خواہاں ہے لیکن اسکا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان قوم انڈیا سے خوف زدہ ہے۔ہندوستان کے دل ودماغ میں جب کبھی پاکستانی قوم یامسلمانوں کے حوالے سے کمزور ہونے کا خدشہ پیدا ہونے لگے تو اس کے حکمرانوں،دانشوروں اور تاریخ کا مطالعہ رکھنے والوں کو تھوڑا پیچھے کی جانب مڑ کر تاریخ پر نظر ضرور دوڑالینی چاہیے اور انہیں ذہن میں رکھنا چاہیے
محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری، سلطان صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان اور طارق بن زیاد نے کس طرح اسلام دشمنوں کے عزائم کو روند کر اپنی فتوحات کے جھنڈے کرہ عرض پر گاڑھے تھے۔اگر ہندوستان اتنی بہادر اور مضبوط دفاع رکھنے والی قوم ہے تو پھر اس کے دل میں مسعود اظہر،حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کے حوالے سے خوف کے وسوسے اور واہمے کیوں اُٹھتے رہتے ہیں؟