اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار اعزاز سید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر سے ملاقات میں وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔اعزاز سید اپنے کالم ” مولانا فضل الرحمن کا دھرنا” میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر سے پوچھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو کیا امریکی حکومت ان سے ڈیل کرے گی؟۔امریکی سفیر این پیٹرن کو مولانا نے خبردار کیا کہ امریکا اپنے تمام انڈے صرف ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالے۔وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی حکومت اپنی ساری توجہ بینظیر بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی پر ہی نہ دے بلکہ ان کی جماعت کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔یہ واضح طور پر وزیراعظم بننے کے لیے مولانا کی طرف سے امریکا کو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ ذمہ دار آدمی ہیں اور دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔اس لیے انہیں نظرانداز نہ کیا جائے۔20 نومبر 2007ء کو مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ظہرانے کی دعوت پر ہونے والی اس ملاقات میں مولانا عبدالغفور حیدری،سینیٹر طلحہ اور اعظم سواتی بھی موجود تھے۔امریکی سفیر نے مولانا فضل الرحمن کی اس مبینیہ گفتگو کی روداد 29 نومبر 2007ء کو اپنی حکومت کو بھیجی جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے منظر عام پر آئی۔اعزاز سید اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ امریکی سفیر کے مطابق بات چیت کا آغاز ہوا تو مولانا عبدالغفور حیدری نے امریکی سفیر کو کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے آگے آنے کے لیے امریکی کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ان کے خیال میں کوئی بڑی سیاسی جماعت بننے کی منظوری امریکا دیتا ہے۔جمعیت علمائے اسلام ف بھی ایک بڑی جماعت جاری رکھنے کی خواہشمند ہے۔اس لیے امریکا سے رابطہ میں رہنا چاہتی ہے۔اُن دنوں امریکا واقعی پاکستان کے اندورنی معاملات میں دلچسپی لے رہے تھے۔کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری تھی،پرویز مشرف کا اقتدار اندرونی سازشوں اور وکلاء تحریک کے باعث خطرے میں پڑ چکا تھا۔امریکی سفیر نے مولانا کو بتایا کہ امریکا کسی رہنما کے سر پر تاج نہیں رکھتا بلکہ جمہوری عوامی فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔اعزاز سید اپنے کالم میں 2002ء کے انتخابات کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ ان انتخابات میں جب کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی تو ایک موقع ایسا بھی آیا جب اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کے وزیراعظم بننے کی بازگشت سنائی دینے لگی۔مولانا متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے جتن بھی کیے تاہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے تناظر میں پاکستان میں کوئی باریش وزیراعظم ناقابل قبول تھا۔اگر یہ رکاوٹ نہ ہوتی تو شاہد مولانا فضل الرحمن تب ہی وزیراعظم بن کر سب کو حیران کر دیتے،اعزاز سید کا کہنا ہے کہ ان دونوں واقعات سے ظاہر ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو مذہبی سیاسی رہنما سمجھنے والے یہ جان سکیں کہ وہ سیاسی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ طاقت کے ہر متعلقہ شراکت دار سے رابطہ رکھتے ہیں۔