(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی ذخائر اور معدنیات کے اعتبار سے بھی مالامال ہے لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسائل اور پسماندگی کے اعتبار سے بھی بلوچستان ہی سرفہرست ہے، پورے پاکستان کو گیس کی سہولت فراہم کرنے والے بلوچستان کے اکثر علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں، قیمتی پتھر اور سونے کے ذخائر کا کوئی حساب ہی نہیں ہے، جس قدر معدنیات بلوچستان میں ہیں اگر دنیا کے کسی دوسرے خطے میں موجود ہوتیں تو ان کا شمار دنیا کے امیرترین ممالک میں ہوتا، لیکن بلوچستان کے کئی علاقوں میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے، بچے اسکول کی عمارت سے محروم جبکہ پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے عوام سفر میں مشکلات اُٹھانے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ بلوچستان کے علاقےمیں پسماندگی دور کرنےکیلئے اہم اعلانات کیے ہیں۔جس سے امید ہے کہ خوش حالی کادور جلد شروع ہوجائےگا,خضدار میں کچلاک قومی شاہراہ کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان کی محرومیوں سے کوئی اختلاف نہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج یہاں کی محرومیوں اور مشکلات میں جو چیز ایک اور مشکل پیدا کر رہی ہے وہ ایک ایسا بیانیہ ہے کہ شمالی بلوچستان اور جنوبی بلوچستان، میں نے اپنے بلوچ اور پشتون بھائیوں سے بات کی ہے کہ خدارا اس بیانیے کو ترک کریں اور یہ کہیں کہ بلوچستان کے جس حصے میں بنیادی سہولتیں مفقود ہیں، جہاں انانصافی ہے، سڑکیں نہیں، ترقی بالکل مفقود ہے، وہاں دور دور تک خوش حالی کے آثار نہیں ہیں، چاہے وہ بلوچستان کے جس حصے میں ہوں وہ جنوب میں ہوں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر ان مسائل کو حل کریں گے، وہ شمالی علاقے ہیں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر حل کریں گے لیکن اس کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں پر ترقی کا راستہ اور سفر تھم چکا ہے وہاں اپنی تمام قوت اور اجتماعی بصیرت اور وسائل وہاں پر جھونکنے ہیں۔ واضع رہےکہ طویل کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کے بعد جب 1970میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تو عام بلوچستانی کا یہ خیال تھا کہ اب سب دکھ درد دور ہوں گے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ ہوگا لیکن کیا ہوا، کیوں ہوا اور اس 52سال پر محیط عرصے میں کس وفاقی حکومت کا رویہ ہمدردانہ یا کس کا قبضہ گیری والا رہا۔ 70کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ملک بڑے مسائل سے دوچار تھا۔ جلد ہی صوبے میں مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی۔ تاہم پیپلز پارٹی لیڈر شپ نے بلوچستان میں تعلیم کو فوکس کیا۔ ایک دور اندیش لیڈر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کو تعلیم کی اہمیت کا پتا تھا۔ انہوں نے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہائی اسکول اور انٹر کالجز بنوائے۔ پھر آمریت کا دور شروع ہوتا ہے لیکن اس دور کا تعلیم کے میدان میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نظر سے نہیں گزرا۔ آمریت کے دن ختم ہوئے اور کہنے کو جمہوری حکومتوں نے اپنا سفر شروع کیا۔ آج اگر آپ عام بلوچستانی سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے بارے میں رائے لیں تو ہر ایک یہ کہے گا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کی زیادہ ہمدرد رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن نے وفاقی جماعت کے بجائے ایک بڑے صوبے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں این ایف سی ایوارڈ ہوا اور اس میں بلوچستان کا حصہ بڑھانے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔ آغازِ حقوقِ بلوچستان کا تمام تر کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کو جاتا ہے۔ اگر بطور صوبہ بلوچستان کو کبھی مالی نقصان ہوا ہے تو وہ دور مسلم لیگ نون کی حکومت کا تھا جس نے بلوچستان کی غربت، محرومیوں، پسماندگی کے باوجود اسے ساتھ لے کر چلنے والی نظر سے کبھی نہیں دیکھا سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ، جس کا بلوچستان کے بغیر تصور ہی ناممکن ہے ،اس کے منصوبوں سے بلوچستان کو آوٹ کرنے کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ ن نے اپنے نام کرایا لیکن امید ہےکہ اب ماضی کی غفلت و کوتاہیوں کاازالہ کیاجاسکےگااس صوبے میں ترقی شروع ہوجائےگی اگلے روز دورہ بلوچستان میں وزیر اعظم شہبازشریف کا کہناتھاکہ میرے لیے اہم دن ہے کہ پاکستان کے اس صوبے کے دارالحکومت میں موجود ہوں جہاں قائداعظم نے عمائدین بلوچستان سے خطاب کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم کے ارشادات کو نوجوان بہت غور و فکر سے سن رہے تھے، جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس عظیم صوبے کے عظیم سرداروں اور عمائدین نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اپنی دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ اسی شہر میں پاکستان کے ساتھ والہانہ الحاق کا اعلان کیا۔یہ وہ صوبہ ہے جہاں خود بلوچ، پشتونون اور دیگر قوموں کا صوبہ ہے، جغرافیائی لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، اس کے باوجود بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے حوالے سے یہ صوبہ بہت پیچھے رہ گیا، سوئی سے گیس نکلے تو پورا پاکستان مستفید ہو مگر یہاں کے باسی محروم ہے, جو فائدہ اس قدرتی دولت سے اس صوبے کے لوگوں کو حاصل ہونا تھا وہ 50 کی دہائی سے اب تک آٹے میں نمک کے برابر ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس صوبے کو اللہ نے جو عنایات کی ہیں، اس کا ہم فائدہ نہ اٹھا سکے اور دیگر صوبوں کو نہ پہنچا سکے بلکہ منصوبے قانونی مسائل میں ہیں اور اربوں روپے وکیلوں اور دیگر مد میں ضائع ہوگئے جبکہ کئی سال لگے اور ہماری اجتماعی بصیرت ناکام ہوگئی، اپنی اجتماعی کارکردگی میں ناکام رہے۔ یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیا ہم ماضی میں جھانکتے رہیں گے، آہ و بکا کرتے رہیں گے یا ماضی سے سبق حاصل کرکے اتفاق اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس صوبے نے جو قربانیاں دی ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی ہے، اپنے پیاروں کی لاشوں کو اٹھایا اور یقیناً اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری بہادری افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قربانیاں دی اور اس دہشت گردی کو روکا اور شکست فاش دی، وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ حالیہ دنوں میں دہشت گردی نے پھر سر اٹھایا ہے، جس کی وجوہات ہم اچھی طرح جانتے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہماری باہمی کاوشوں اور یک جہتی سے اس کو دوبارہ شکست فاش دیں گے، شرط یہ ہے قوم کے اندر اتحاد، اتفاق اور یک جہتی ہو، فیصلے کرنے کی قوت ارادری ہو۔ان کا کہنا تھا کہ شمالی بلوچستان اور جنوبی بلوچستان، میں نے اپنے بلوچ اور پشتون بھائیوں سے بات کی ہے کہ خدارا اس بیانیے کو ترک کریں اور یہ کہیں کہ بلوچستان کے جس حصے میں بنیادی سہولتیں مفقود ہیں، جہاں انانصافی ہے، سڑکیں نہیں، ترقی بالکل مفقود ہے، وہاں دور دور تک خوش حالی کے آثار نہیں ہیں، چاہے وہ بلوچستان کے جس حصے میں ہوں وہ جنوب میں ہوں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر ان مسائل کو حل کریں گے، وہ شمالی علاقے ہیں سو بسم اللہ آگے بڑھ کر حل کریں گے لیکن اس کی بنیاد یہ ہے کہ جہاں پر ترقی کا راستہ اور سفر تھم چکا ہے وہاں اپنی تمام قوت اور اجتماعی بصیرت اور وسائل وہاں پر جھونکنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے زعما سے باتیں کی ہیں، امن و امان پر بریفنگ لی ہیں، ترقیاتی منصوبوں پر ملاقات کی ہے اور اراکین اسمبلی سے گفتگو ہوئی ہے اور وہ بلوچستان کے مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں کہ ترقیاتی کام اور خوش حالی کے معاملات بہت ضروری ہیں لیکن ہمارے اور بھی مسائل ہیں جو دوسرے صوبوں میں نہ ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ زعما لاپتا افراد کی بات کر رہے ہیں، صرف سیاسی رہنماؤں نے نہیں بلکہ آج یہاں وکلا نے اس بات کو اٹھایا کہ ہمیں آپ سے توقعات ہیں اور کہتے ہیں ترقیاتی کام بہت ضروری ہیں لیکن اس سے ہٹ کر یہ جو دوسرے مسائل ہیں، لاپتا افراد اور مسائل ان کو حل کریں۔ان کا کہنا تھا کہ میں گزارش کر رہا ہوں اس میں سب سے بڑھ کر سردار اخترجان مینگل تاکید کے ساتھ بار بار ذکر کرتے ہیں اور میں اس کے لیے خلوص دل کے ساتھ آواز اٹھاؤں گا اور جو بھی اس حوالے سے لوگ بااختیار ہیں،جن کی ذمہ داری ہے، ان سے بات کریں گے، قاعدے، قانون اور میرٹ کے اوپر ی ہبات کریں گے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو کیونکہ یہ بات ہم انصاف اور قانون کے مطابق حل نہیں کر پاتے تو یہاں پھر اس طرح کی محرومی اور مایوسی موجود رہے گی باوجود کہ ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں۔شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنے بلوچ اور پشتون بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے لیے آپ کے ساتھ کوشاں ہوں گے اور انصاف کی بنیاد پر اس اس مسئلے کو حل کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔کچلاک قومی شاہراہ سے متعلق بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ آج اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، خضدار اور کچلاک اس شاہراہ کا حصہ ہے جو کراچی اور لسبیلہ سے لے کر چمن کا حصہ ہے جو تقریبا 760 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہر ایک نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم اس کو خونی سڑک کہتے ہیں اور یہاں آئے روز حادثے ہوتے ہیں اور لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں، اس سیکشن کا سنگ بنیاد رکھا ہے اور مجموعی سیکشن 303 کلومیٹر کا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین این ایچ اے اور وزیرمواصلات اور وزیراعلی موجود ہیں تو اگر یہ واقعی خونی سڑک ہے تو خدارا اس سے خون خشک کرکے ایک خوشحالی کی سڑک بنانے میں ذرا بھی تاخیر سے کام نہ لیں۔ان کا کہنا تھا کہ لسبیلہ یا چمن سے شروع کریں، اکٹھا یہ منصوبہ شروع کریں، لسبیلہ سے چمن تک، منصوبوں کے لیے احسن اقبال سے دستہ بستہ گزارش ہے اور سیکریٹری کو اس پر تبادلہ خیال کرنے کا کہا ہے اور پیر کو اس منصوبے پر بات ہو۔وزیراعظم نے کہا کہ اس سیکشن کی فنڈنگ اور ٹینڈرز ہو چکے ہیں، بلوچستان کے منصوبے بند پڑے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں، اربوں روپے لگ گئے لیکن نظر نہیں آتے ہیں تو ہم اس کی شروعات اعلیٰ سطح پر کریں۔نہوں نے چیئرمین این ایچ اے کو ہدایت کی کہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے منصوبے پر کام شروع کریں اور پاکستان کے مایہ ناز ٹھیکیداروں کے حوالے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ 200 ارب روپے کا منصوبہ ہے اور پہلا سیکشن 18 ارب روپے ہے لیکن پورا سیکشن 81 ارب کا ہے اور لسبیلہ تک 200 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم پیسہ کہاں سے آئے گا لیکن وعدہ کرتا ہوں کہ میں الٹا ہوں سیدھا ہوں کم ترین وقت میں پیسہ لے کر آؤں گا اور کم ترین وقت میں اس کو مکمل کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال میں کراچی سے چمن تک یہ منصوبہ مکمل کرنا ہے، یہ سب کے لیے چیلنج ہے، اس دوران ہم پیسے بھی لے کر آئیں اور ہماری حکومت کی آئینی مدت بھی ڈیڑھ سال ہے۔ہ پنجاب اور سندھ، خیبرپختونخوا کے لیے پیسے لا سکتے ہیں ہم بلوچستان کے لیے پیسے کیوں نہیں لاسکتے، میرے ذہن میں منصوبے چل رہے ہیں وہ بھی اللہ کرے تو ہم لے کر آئیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ کئی سال سے اس قوم کے اربوں روپے ضائع ہوگئے، یہاں خط غربت سے نیچے کی آبادی کو بھی پورا حصہ نہیں مل رہا کہ یہ ان کو فنڈز ملیں اور غربت کی لکیر سے اوپر آئیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ بلوچستان کی غربت مٹانے اور کم کرنے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے حوالے سے 5 لاکھ خاندانوں کے لیے اضافی پروگرام کا اعلان کر رہا ہوں، جس پر شاید 10 ارب خرچ ہوں گے لیکن فی الفور جاری کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ شرط یہ ہے کہ پیسہ ان خاندانوں کو جائے گا، یہ پہلے تین مہینوں تک استثنیٰ ہوگا لیکن اس کے بعد شرط ہوگی کہ وہ اپنے بچیوں اور بچوں کو اسکولوں میں بھجوائیں گے، جو خاندان اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوائے گا اس کے لیے یہ پروگرام بند ہوجائے گا۔شہباز شریف نے کہا کہ یہ ایک اتحادی حکومت ہے اور بہت بڑا چیلنج ہے، اگر ان رہنماؤں میں خلوص ہے تو مل کر ہم ایک تاریخ رقم کرسکتے ہیں کہ صرف اس صوبے کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ترقی کا پروگرام آگے لے کر چلیں,وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں کوئٹہ میں میٹرو بس کا پروگرام ترتیب دیا تھا وہ ادھورا رہ گیا تھا، اس کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار کریں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں ان کو لیپ ٹاپ کا پروگرام بڑی تیزی سے آگے پھیلائیں گے تاکہ ان کے پاس بندوق نہیں لیپ ٹاپ آئیں گے۔شہباز شریف نے کوئٹہ یا جہاں بھی وزیراعلیٰ کہیں گے ٹیکنیکل یونیورسٹی تحفے کے طور پر دیں گے تاکہ اپنے بچے اور بچوں کے لیے ایک شان دار یونیورسٹی ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقابلہ کسی پاکستانی یونیورسٹی سے نہ ہو بلکہ یہ اعلیٰ اور ممتاز تعلیمی ادارہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں میٹرو بس ممکن ہے تو اس پر ہم تیزی سے کام شروع کریں۔واضع رہےکہ صوبہ بلوچستان نے قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس جلد از جلد طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس مرتبہ آبادی کے علاوہ رقبہ پسماندگی اور محصولات کو بھی مد نظر رکھا جائے وگرنہ بلوچستان یونہی پسماندہ رہے گا۔