پاناما پیپرز کیس میں جماعت اسلامی کے وکیل نے دلائل دیے کہ لندن کے اثاثے چھپانے پر وزیراعظم نااہل ہوگئے۔ اسمبلی میں تقریر شواہد کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں پانچ رکنی بینچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی آج تیرہویں سماعت کی جسے پیر تک ملتوی کردیا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا الزام یہ ہے کہ جان بوجھ کر لندن کے اثاثے چھپائے گئے؟ پراپرٹی کی ملکیت اس کیس میں بھی ثابت نہیں ہے،اگر وزیر اعظم ملکیت تسلیم کرتے تو اتنے دن سماعت ہی نہ ہوتی۔توفیق آصف نے دلائل دیے کہ وزیراعظم نےکہاتھاکہ یہ وہ وسائل ہیں جن سےلندن میں فلیٹس خریدے گئے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہاں پردو سوالات ہیں،سوال نمبرایک فلیٹس کب خریدےگئے؟ دوسراسوال یہ ہےکہ فلیٹس کا وزیر اعظم سے کیا تعلق ہے؟خریداری کی حد تک اعتراف ضرور ہے،مگر یہ نہیں ہے کہ جائیداد نواز شریف نےخریدی ہے۔
وکیل جماعت اسلامی توفیق آصف نے کہا کہ لندن فلیٹس کاتذکرہ ظفر علی شاہ کیس میں موجود ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیاظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف فریق تھے؟وکیل نے جواب دیا کہ نوازشریف ظفر علی شاہ کیس میں فریق اول تھے،ایڈووکیٹ خالد انور نےاس وقت نواز شریف کی کیس کی پیروی کی تھی۔اس پرمخدوم علی خان کاجواب آیا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نواز شریف فریق نہیں تھے۔جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کے دوران ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دلائل واپس لے لیے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پراپرٹی کی ملکیت اس کیس میں بھی ثابت نہیں ہے،آپ جوحوالہ دےرہے ہیں وہ وکلاکےدلائل ہیں، عدالتی فیصلہ نہیں۔توفیق آصف نے کہا کہ ثبوت کےطورپرنواز شریف نے 3تقاریر کیں ،اسمبلی میں تقریر شواہد کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔انہوں نے عدالت میں استثنا مانگ لیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کیلیے اسمبلی فلور استعمال ہوسکتا ہے؟جسٹس گلزار نے وکیل توفیق آصف کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔نوازشریف نےآرٹیکل 66کےتحت استثنانہیں استحقاق مانگاہے۔