مسلم لیگ کے نظریات و افکار کٹر مسلم لیگیوں کی نسلوں کے لہو میں گردش کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھلے سینکڑوں سیاسی پارٹیاں جنم لے لیں، مسلم لیگ کا نعم البدل نہیں۔ مسلم لیگ نے ہمیں پاکستان دیا۔ مسلم لیگ نے ہمیں نظریہ پاکستان دیا۔ مسلم لیگ نے ہمیں محمد علی جناح دیا۔ مسلم لیگ نے ہمیں برصغیر میں بحیثیت مسلمان ایک باوقار مقام دیا۔ پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ“ مسلم لیگ نے سمجھایا۔ 1906 میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی دعوے دار تھی۔ قائد اعظم کو بھی جب یہ یقین ہو گیا کہ ہندو مسلمان کے ساتھ مخلص نہیں ہے تو وہ آل انڈیا کانگرس کو چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 23 مارچ 1940ءکو آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں اپنے تاریخی اجلاس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر دیا۔ 1946ءکے انتخابات میں مسلمانوں کے لئے مخصوص تمام نشستوں پر آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کی کامیابی نے ثابت کر دیا کہ وہی مسلمانوں کی اصل نمائندہ جماعت ہے۔ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی طرح ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ کے لئے بھی ایک ایسے آزمائشی دور کا آغاز ہوا جو ابھی تک ختم نہیں ہو سکا۔ پاکستان مسلم لیگ کو آمروں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کیا تو سیاستدان بھی اس کے ساتھ کھیلنے میں پیچھے نہ رہے۔ 1958ءمیں چیف مارشل لاءایڈ منسٹریٹر جنرل ایوب خان نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت کی کنونشن مسلم لیگ تھی جس نے فوجی آمر کی حمایت کی تو 1962ءمیں وہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ کنونشن مسلم لیگ ایوب کی جماعت بن گئی اور ان کے مخالفین نے اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کونسل تشکیل دی۔ کونسل مسلم لیگ میں چودھری محمد حسین چٹھہ، میاں ممتاز دولتانہ، خواجہ محمد صفدر اور چودھری ظہور الٰہی اور خان قیوم خان جیسے رہنما شامل تھے۔ خان عبدالقیوم خان کے کونسل لیگ سے اختلافات ہوئے تو انہوں نے اپنے نام سے مسلم لیگ قیوم قائم کر لی اور 1970ءکے الیکشن میں حصہ لیا۔1973ءمیں بھٹو دور میں کنونشن اور کونسل مسلم لیگیں تو پھر اکٹھی ہو گئیں، جب کہ مسلم لیگ قیوم پیپلز پارٹی کی حکومت کی اتحادی تھی، تب پیر پگارا نے 1973ءمیں فنکشنل مسلم لیگ بنا لی۔ جنرل ضیا الحق نے مسلم لیگوں کو یکجا کر کے محمد خان جونیجو کو اس کا صدر بنایا تو 1985ءمیں پیر پگارا نے علیحدگی اختیار کرلی، تاہم ان کی فنکشنل مسلم لیگ آج بھی قائم ہے۔ نواز شریف مسلم لیگ نواز کے نام سے اپنی الگ جماعت بنا چکے تھے۔ جونیجو لیگ سے اختلافات کی وجہ سے میاں منظور وٹو بھی الگ ہو گئے اور 1995ءمیں پاکستان مسلم لیگ جناح قائم کر لی، تاہم جونیجو اور جناح دونوں جماعتیں 2004ءمیں مسلم لیگ ق میں ضم ہوگئی تھیں۔ ق کے رہنما شیخ رشید نے پارٹی سے اختلافات کے بعد 2008ءمیں عوامی مسلم لیگ کے نام سے جماعت بنالی، جبکہ سابق آمر پرویز مشرف کا سیاست سے دل نہیں بھرا، اور انہوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے جماعت بنا ڈالی۔ اب تک یہی جماعت مسلم لیگ کے بطن سے نکلنے والی آخری مسلم لیگ جماعت ہے۔ لیکن ہماری پیشگوئی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا تو مسلم لیگ نواز کے تقسیم ہونے کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ کے نام کو سیاستدانوں نے خوب استعمال کیا لیکن علامہ اقبال کی مسلم لیگ قائد اعظم کے ساتھ ہی دفن ہوگئی۔ مسلم لیگ جذبات اور نفسیات کا نام ہے۔ مسلم لیگ کے بزرگ مسلم لیگ کے کارکن تھے، ہمیں اس جماعت سے ایک روحانی وابستگی ہے لیکن ہماری حروف تہجی میں بٹی ہوئی مسلم لیگوں کی مفاد پرست پالیسیوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بلا شبہ میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ کے نام کو زندہ رکھا۔ دنیا میں آج بھی اگر مسلم لیگ کی پہچان ہے تو وہ اس کی موجودہ قیادت میاں محمد نواز شریف ہےں۔ تین بار اس ملک پر حکمرانی کا اعزاز ایک تاریخ ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بزنس مین جب حکومت میں آتے ہیں تو ان کی سیاست بزنس کے گرد گھومتی ہے۔ بڑے بڑے منصوبے شروع کر دئیے جاتے ہیں جن سے بزنس کو مزید فروغ ملتا ہے اور جن کو نواز نا مقصود ہوتا ہے ان منصوبوں سے ٹھیکے دلا کر حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔ جاگیر دار سیاست میں آتے ہیں تو جاگیریں اور لینڈ مافیا ز کی سیاست ہوتی ہے۔ امریکی صدر اوباما کی طرح صاف کردار کے ساتھ گھر لوٹ جانا، بد نصیب پاکستان کے حکمرانوں کی قسمت میں نہےں۔ مسلم لیگ جب سے نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی ہے، اس میں پاکستانیت سے زیادہ خاندانی رنگ زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمارے بزرگوں کی مسلم لیگ ”تلاش گمشدہ“ ہے۔ پاکستان بہت جلدی سے بدل رہا ہے۔ پرانے نظریات ، خیالات و افکار ، جذبات و احساسات مفادات کی نذر ہوگئے۔