اسلام آباد (یس ڈیسک) حکمران جماعت ن لیگ کے لیے سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ورلڈکپ میں کوارٹر فائنلز تک پہنچنے کے، یعنی ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی، ایک آدھا حریف قابو آ بھی سکتا ہے لیکن ایک آدھا حریف ٹف ٹائم بھی دے سکتا ہے۔سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود ن لیگ کے لیے سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرنا آسان نہیں۔ 104 کے ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے 53کے ہندسے کو چھونا جان جوکھم کا کام بن گیا ہے۔
ن لیگ کے موجودہ اتحاد و الحاق پر نظر ڈالیں تو ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن کچھ اس طرح بنتی ہے، ن لیگ کی اپنی 26نشستیں ہیں، اس کے اتحادی جے یو آئی ف کی 5، پی کے میپ کی 3 اور نیشنل پارٹی کی تین نشستیں ملائيں تو یہ تعداد 37 بنتی ہے، اب اگر اس میں سینیٹ کے موجودہ 6 آزاد اراکین بھی ملادیں تو یہ تعداد 43بن جائے گی، چلیں اس میں فاٹا کے ہونے والے انتخابات کے چاروں فاتحین بھی ڈال دیں، تب بھی یہ تعداد 47بنتی ہے، اب اس میں بلوچستان کی غیر جانبدار جماعتوں بی این پی عوامی اور بی این پی مینگل مینگل کی تین نشستیں ملائیں تو یہ تعداد 50بنتی ہے، چلیں ایسا کریں اس میں جماعت اسلامی کی بھی ایک نشست ڈال دیں تو یہ 51 ہوگئی
لیکن سادہ اکثریت کے لیے 2اور سیٹس چاہئیں، اس کے لیے ان کے پاس جانا پڑے گا جو یا تو براہ راست مخالف ہیں یا پھر اس وقت پیپلز پارٹی کے اتحادی ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہت آسان دکھائی دیتی ہے، اپنی 27 سیٹوں کے ساتھ اسے ایم کیو ایم کے 08، عوامی نیشنل پارٹی کے 7 اور ق لیگ کے 4اراکین کی حمایت حاصل ہے اور یہ تعداد 46 تک پہنچ جاتی ہے، اس میں اگر موجودہ 6 آزاد اراکین شامل کرلیں تو یہ تعداد 52 تک پہنچ جائے گی
پھر اگر بی این پی عوامی یا اختر مینگل کی ایک ہی نشست مل جائے تو سادہ اکثریت مل جائے گی، اگر یہ نہ ملے تو پھر فاٹا کےمنتخب ہونے والے چار اراکین میں سے بھی ایک ہی ووٹ چاہیے ہوگا۔ اگر تیسرا دھڑا دیکھیں تو تحریک انصاف 6، آزاد 6، جماعت اسلامی ایک، بی این پی عوامی دو اور بی این پی مینگل آپس میں مل جائيں تو یہ تعداد 16 بنتی ہے اور اس میں فاٹا کے مزید چار اراکین شامل کریں تو تعداد 20تک پہنچ جائے گی، اس دھڑے کے مشترکہ گروپ بننے کے امکانات تو واضح نہیں لیکن یہی وہ لوگ ہیں جو سینیٹ کی چيئرمین شپ میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔