یہ بالکل واضح ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نون لیگ کے سب سے بڑے اور طاقتور سیاسی مخالف کے طور پر ابھرے ہیں جبکہ حکمراں جماعت کو فی الحال پیپلزپارٹی کی طرف سے کوئی بہت بڑا سیاسی چیلنج لاحق نہیں ہے ہاں البتہ سندھ میں پی پی پی کے پائے کی کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ عمران خان ایک بڑے بحران کا شکار ہیں ایسے وقت میں جبکہ وہ حکومت کو پاناما لیکس کے مسئلے پر للکار رہے ہیں وہ سیاسی طور پر مکمل تنہا ہوگئے ہیں اور کوئی بھی پولیٹکل فورس ان کے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں نون لیگ کو صبروتحمل سے کام لینا چاہئے نہ کہ ایسے اقدام کرنے چاہئیں جن سے سیاسی کھچائو بڑھے۔ کیا ضرورت تھی اتوار کے روز پشاور میں عمران خان کے ’’رائے ونڈ مارچ‘‘کے خلاف ریلی نکالنے کی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی بلڈنگ پر پارٹی کا پرچم لہرانے کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہرین نے وزیراعظم نوازشریف کی رہائش گاہ کے قریب آنے یا اس کا گھیرائو کرنے کی صورت میں سخت الفاظ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دھمکیاں بھی دیں ۔ اس سے قبل وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی نے بھی مولا جٹ والا انداز اختیار کیا کہ نون لیگ کے کارکن جو کہ ہر شہر اور قصبے میں موجود ہیں خود بخود ہی پی ٹی آئی کے رائے ونڈ مارچرز کو سبق سکھا دیں گے۔ اس طرح کے بیانات اور اقدامات صرف اشتعال انگیزی کو ہی جنم دیتے ہیں جن سے حکمراں جماعت کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ ویسے بھی حکومت وقت کیلئے سیاسی ٹکرائو کسی طرح بھی سود مند نہیں ہوتا بلکہ اس کی تو یہ کوشش ہونی چاہئے کہ سیاسی ماحول پرامن رہے۔ عمران خان کے رائے ونڈ کے مارچ کے پہلے اعلان پر حکومتی وزراء کا رد عمل مناسب تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس احتجاج کا جواب حکمت اور دانشمندی سے دیں گے نہ کہ اس انداز میں جو کہ پی ٹی آئی نے اپنایا ہوا ہے۔
بلاشبہ تمام سیاسی جماعتوں کی عمران خان کے احتجاج سے مکمل لاتعلقی نے حکومت میں بہت زیادہ اعتماد پیدا کر دیا ہے جسے غرور اور تکبر اور جارحانہ انداز میں نہیں بدلنا چاہئے۔ جب نون لیگ کے سب سے بڑے سیاسی مخالف خود بخود ہی اپنی حکمت عملی کی وجہ سے نہ صرف سیاسی تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں بلکہ ان کے احتجاج میں لوگوں کی دلچسپی بھی بہت کم ہوگئی ہے تو نون لیگ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ خواہ مخواہ ٹکرائو کی صورتحال پیدا کرے بلکہ اسے تو چاہئے کہ وہ اپنا فوکس بہت سے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں خصوصاً پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت ہونے والے میگا پروجیکٹس کو جلد از جلد مکمل کرنے پر دے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ عمران خان جوں جوں احتجاج کرتے رہیں گے ان کی مقبولیت کا گراف گرتا رہے گا۔ اگر 2014ء کے حالات کو سامنے رکھیں تو اس وقت پی ٹی آئی ایک بہت بڑی سیاسی فورس تھی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور عمران خان نہ ختم ہونے والے احتجاج پر لگے رہے تو وہ اس کی سیاسی قیمت ادا کرتے رہے۔ اگر انہوں نے یہی پالیسی جاری رکھی جو کہ یقیناً وہ جاری رکھیں گے تو عوامی سطح پر ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اگر اس نے احتجاج بند کر دیا تو اس کی مقبولیت بہت ہی کم ہو جائے گی۔ تاہم اس کے اہم رہنما اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ پارٹی ہر وقت سڑکوں پر رہے۔ جہاں تک پانا ما لیکس پر ا حتجاج کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک خود ہی بیک گرائونڈ میں چلا گیا ہے اور عام آدمی اس سے لاتعلق ہے۔ جس طرح عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر احتجاج کرکے تقریباً 2 سال گزار دئیے تھے اور بالآخر انہیں حاصل کچھ بھی نہیں ہوا تھا اس طرح ان کو آف شور کمپنیوں کے مسئلے پر بھی ناکامی کا سامنا ہے۔
حکومت کو ڈر تھا کہ کہیں عمران خان کے رائے ونڈ مارچ میں سربراہ عوامی تحریک علامہ طاہر القادری شامل نہ ہوجائیں لیکن اس کا یہ خوف اس وقت بالکل ختم ہوگیا جب انہوں نے یہ صاف اعلان کر دیا کہ وہ اس احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے اور وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں خواہ مخواہ انتشار پھیلے۔ علامہ صاحب کے نئے فرمودات نے نون لیگ میں اعتماد کو مزید بڑھا دیاہے۔ اس اعلان کے بعد اس میں مزید ٹھہرائو آنا چاہئے اور اسے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہئے جس سے خواہ مخواہ سیاسی انتشار پیدا ہو۔ 2014ء میں بھی عمرا ن خان کا دھرنا نہ تو 126 دن چل سکتا تھا اور نہ ہی اس کی کوئی زیادہ اہمیت رہتی اگر علامہ صاحب اپنے ہزاروں مسلح مریدوں کو ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے قریب جمع نہ رکھتے۔ انہوں نے ایک ایسے جلسہ عام کا انتظام کر رکھا تھا جو کئی ماہ چلتا رہا جس کا سب سے زیادہ فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔ باوجود اس کے کہ اس وقت حکومت کافی ڈری ہوئی تھی مگر پھر بھی اس میں اتنی سکت تھی کہ وہ عمران خان کے ڈی چوک میں دھرنے کو چند دنوں بعد ہی ختم کر دیتی اگر اس کے قریب ہی علامہ صاحب کے پیروکار جن میں بہت سے بچے اور عورتیں بھی تھیں نہ ہوتے۔ ان معصوموں نے حکومت کو بہت بے بس کر دیا تھا۔ حکومت شاید ہی پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ریڈ زون میں داخل ہونے دیتی اگر ان کے ساتھ عوامی تحریک کے کارکن نہ ہوتے۔ اب جبکہ علامہ صاحب نے فرمان جاری کر دیا ہے کہ وہ رائے ونڈ مارچ میں شامل نہیں ہورہے تو حکومت عمران خان کے احتجاج سے کچھ زیادہ پریشان نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ اس کو صحیح طریقے سے ہینڈل کر لے گی۔ یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے پہلے بہت سے عوامی جلسوں کی طرح رائے ونڈ میں بھی ایک اور ریلی منعقد کرلیں گے اور یہ صرف ون ڈے شو ہی ہوگا۔ جب کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ’’ہم خیال‘‘ سیاسی جماعتوں سے بات کرکے مارچ کی حتمی تاریخ طے کریں گے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے ایک ایک کرکے واشگاف الفاظ میں نہ صرف یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس مارچ میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ انہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وزیراعظم کی رہائشگاہ پر ایسے احتجاج کو ترک کر دیں۔کون سی ’’ہم خیال‘‘ جماعت ہے جس سے پی ٹی آئی بات کرے گی؟ پیپلزپارٹی نے کہا ہے کہ جمہوریت رائے ونڈ جا کر تصادم اور گڑ بڑ کی باتیں کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور وہ کسی بھی لیڈر کے گھر کے گھیرائو کے خلاف ہیں۔ قاف لیگ کے صدر چوہدری شجاعت عمران خان کو پہلے ہی مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ یہ مارچ کینسل کریں۔ جماعت اسلامی نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ایسے احتجاج سے لاتعلق ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی حکومت مخالف تحریک میں شامل نہیں ہوگی۔ نون لیگ کو چاہئے کہ وہ ان تمام جماعتوں کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرے اور اپنے جوشیلے لیڈروں اور کارکنوں کو سختی سے منع کرے کہ وہ اشتعال انگیزی سے باز رہیں اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں۔
بشکریہ جنگ