اسلام آباد (ویب ڈیسک) ب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ق میں اختلافات کی خبریں سر گرم رہیں۔حکومت کے لیے بھی اتحادی جماعت کو ناراض کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ذرائع کے مطابق ق لیگ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں صوبے میں اور وفاق میں دو دو وزارتیں دی جائیں گی۔تاہم معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے حکومت اور ق لیگ میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے۔کچھ روز قبل دنووں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت میں ملاقات ہوئی تھی،جس میں پاکستان تحریک انصاف نے ق لیگ کو تمام تحفظات دور کروانے کی یقین دہانی کرئی تھی۔دنوں جماعتوں میں تعاون جاری رکھنے اور اتحاد کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق ہوا ۔
دنوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اس سلسلے میں ایک تحریری معاہدہ طے پایا کہ جلد ہی پنجاب یا وفاق میں ق لیگ کے دو وزراء حلف اٹھائیں گے جب کہ وزراء کو اپنے محکموں میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔ق لیگ کے ایم این ایز والے حلقوں میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی جب کہ ق لیگ کے لوگوں کو کارپوریشن سمیت مخلتف محکموں میں جگہ دی جائے گی۔ اور اہم امور میں ق لیگ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ تاہم اب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ق کے درمیان طے شدہ معاملات پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے جس کے تحت صوبے کے بعد وفاق میں بھی مسلم لیگ ق کو وزارت دی جائے گی، پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہیٰ اگلے ہفتے اپنی وزرات کا حلف اٹھائیں گے۔مونس الہیٰ کو صنعت و پیداوار کا قلمدان دیا جائے گا۔واضح رہے گذشتہ روز (ق)لیگ کے بائو رضوان نے صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔بائو رضوان کے حلف اٹھانے کے بعد پنجاب کابینہ میں مسلم لیگ (ق)کے وزرا کی تعداد 2 ہوگئی۔ مسلم لیگ (ق)کواسپیکر پنجاب اسمبلی اورایک پارلیمانی سیکریٹری کا عہدہ بھی دیا جا چکا ہے جبکہ مسلم لیگ (ق)کو قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ میں بھی نمائندگی دی جائے گی۔واضح رہے کہ تحریک انصاف اورمسلم لیگ (ق)کے درمیان اختلافات بتدریج بڑھ رہے تھے ، ان ہی کی وجہ سے (ق)لیگ کے صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار نے اپنا استعفی پارٹی قیادت کو دے دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ میں نے وزارت کا منصب ملک وقوم کی خدمت کے لیے قبول کیا تھا لیکن میری وزارت اور کام میں بلاوجہ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، ایسی صورت حال میں ذمہ داریاں نبھا نہیں سکتا۔ اختلافات کے خاتمے کے لیے تحریک انصاف اور (ق)لیگ کی قیادت نے ملاقات کی تھی جس میں (ق)لیگ کو مزید ایک وزارت دینے اور حافظ عمار کا استعفی واپس لینے کا فیصلہ ہوا تھا۔