حیدر آباد (ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ) معارف شاعر ، ویکیپیڈیا کے انڈیا ہیڈ جناب نثار احمد صاحب پونہ کے والد محترم اردو کے کہنہ مشق اور بزرگ شاعر سید عبدالعظیم والد حضرت عبدالروف صاحب کا مختصر علالت کے بعد آج صبح انتقال ہوگیا، مرحوم ٨٥ برس کے تھے۔معارف شاعر سید عبدالعظیم کے انتقال کی خبر ملتے ہی پورے علاقے میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ سید عبدالعظیم انتہائی منکسر المزاج اور زندہ دل انسان تھے۔ اور ہر خاص و عام سے انتہائی خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔
سید عبدالعظیم ،اتالیق اردو ادب ، ماہر لسانیات، مورخ ، شاعراور ادیب کے ناموں سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ ان کے خدمات قابل نا فراموش ہیں۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل ہی درس و تدریس میں اپنی نمایاں اور جلیل القدر خدمات انجام دیتے آرہے تھے۔ یکم ستمبر ١٩٣٠ء میں ضلع چتور کے مریپاڑ گائوں میں پیدائش ہوئی۔ والد محترم حضرت عبدالرئوف ، ایک دانشور ،مذہبی اور ادبی شخصیت مانے جاتے تھے۔ عبدالعظیم صاحب کی تعلیم گرمکنڈہ، مدراس، کرنول، اور تروپتی میں ہوئی۔
سید عبدالعظیم صاحب بحیثیت اردو مدرس ضلع چتور میں ان کے معاصرین میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انہیں کی کاوشوں سے ضلع کے مختلف علاقوں میں اردو ادب کا ماحول پھلا پھولا۔ ان کے کئی مضامین اور شاعری ہندوستان کے مختلف رسائل ،جرائد اور اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کے لکھے گئے روئدادبھی ضلع چتور اور شہر مدنپلی کی اردو ادبی تاریخ میں ایک خاص مقام پیدا کرچکے ہیں۔ ان کی کاوشوں سے شہر مدنپلی میں اردو زبان اور شعر و ادب کی تاریخ کی ترقی و ترویج ہوئی۔ مشاعروں کا آغاز بھی انہیں کی کاوش ، سرپرستی اور دور اندیشیوں کا نتیجہ ہے۔ ٤٤ سال کی طویل سرکاری ملازمت کے بعد سبکدوش ہونے کے بعد ١٩٨٨ء سے شہر مدنپلی میں مقیم تھے۔
دہلی کے معارف شاعر جناب احمد علی برقی اعظمیٰ نے سید عبدالعظیم کی موت پر قلبی دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ مرحوم صوم و صلوٰة کے انتہائی پابند اور تلاوت کلام اللہ سے بے حد شغف رکھنے والے دیندار اور نیک سیرت انسان تھے۔ اور معارف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کے اسطرح انتقال کی وجہ سے اردو ادب کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کر انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ان کی لکھی دو کتابیں ، ”ضلع چتور کی اسلامی تاریخ” اور ” اسرارِ عظیم” شاعری مجموعہ کا حال ہی میں اجراء عمل میں آیاتھا۔ ان کے انتقال سے ادبی، سماجی ہلکے میں غم و غصہّ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ادبی، سماجی، سرکاری، غیر سرکاری شخصیات نے نہایت غمزدہ موحول میں مرحوم کو ایصال ثواب کیا۔ تادم تحریر تعزیت کا سلسلہ جاری تھا۔