تحریر: ملک طلحہ لیاقت کون ہوں میں مجھ کو میں کے راز سے آگاہ کر اور کیا رکھتا ہے معنی اپنے اندر کر سفر کون جانتا تھا ٩ نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا شخص تاریخ کے پنوں میں سنہری الفاظ رقم کرے گا اقبال نے سرکاری ادارے سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف اے کیا ،فلاسفی میں ایم اے بھی یہیں سے کیا پھر بطور پروفیسر خدمات سرانجام دیں۔ اسی درسگاہ میں آج میں بھی زیرِ تعلیم ہوں،اقبال نے اِسی ادارے سے شاعری کا آغاز کیا ،اقبال کے جی سی ہاسٹل کمرے کے سامنے ایک درخت پر شاہین کا بسیرہ تھا اقبال اُن کی جانب دیکھتے ان کی پرواز کو دیکھتے اور پھر اسی شاہین کے ٹوٹے پنکھوں سے قلم کا کام لیتے۔
شاہین سے تشبیح دے کر خطاب فرماتے،میں دیکھتا ہوں کہ اقبال تو آج یہاں نہیں لیکن شاہینوں کا اقبال سے ایسا روحانی رشتہ استوار ہے کہ وہ آج بھی وہاں ہیں۔ اقبال کی شاعری کسی خاص مقصد کے لیے تھی لوگ یورپ کی رنگینیوں سے متاثر ہوتے اور اقبال مسلمانوں کے سنہری ادوار سے پھر موجودہ حالات دیکھتے تو مغموم ہوجاتے ”اصرارِ خودی” اقبال کی ایسی کاوش ہے کہ جس نے مسلمان کے اندر خودی کا تعلق پیدا کیا۔ ” کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟ وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہواتارا؟” خودی کے راز سے آگاہ کیا خودی کو ”روح” سے جوڑا جیسا کہ قرآن میں بھی ہے ” روح ایک ایسی عطا ہے جو ہر انسان میں موجود ہے اور آدم میں بھی موجود تھی جسے سجدہ کرنے کے لیے خدا نے تمام فرشتوں کو حکم دیا۔
اسی روح کو اقبال نے خودی کے نام سے اجاگر کیا،برِصغیر کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دو قومی نظریہ کی بنیاد بھی رکھی اور مسلمان کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا اپنے خواب کو سچ کرنے کے لیے تگ ددو کی اور اسے حقیقت میں بدلا۔میرا پیغام تو خود ڈاکٹر علامہ اقبال بنا کر چلے گئے شاعرِ مشرق خود کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئے اقبال کو پڑھ کر مزید اقبال کے شبیح پیدا ہوں مگر افسوس ہم نے اقبال کے سنہری اصولوں کو کیا چھوڑا ہم اس سے واقف ہی نہ رہے خدا نہ کرے مگر آثار ایسے ہی ہیں کہ آنے والی نسلیں اس عظیم مفکر کا نام ہی بھول جائیں ہمیں اقبال کی سوچ سے نئی جنریشن کو روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔
ہم کو ن ہیں کیا ہیں باخدا یاد نہیں اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں ہیں اگر یاد تو کافر کے ترانے ہی بس !
اقبال جب یورپ کی ترقی کا پسِ منظر دیکھتے تو وہی دیکھتے جو مسلمانوں کی وراثت تھی ،مسلمانوں نے غور نہ کیا اور یورپ پر عمل پیرا ہوئے۔جب یورپ کی لائبریری میں اقبال مسلمان سائنسدانوں اور فلاسفرز کی کتابیں دیکھتے تو اپنے جذبات کا اظہار ایسے کرتے ”مگر وہ علم کے موتی ،کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کا یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ۔ اقبال نے خدا سے شکوہ بھی کیا ”تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا؟ قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام تیرا ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی ورنہ اُمت تیرے محبوب علیہ اصلوة وسلام کی دیوانی تھی اقبال آج ہماری ایسی حالت ہوگئی ”گونگی ہوگئی زبان کچھ کہتے کہتے ہچکچا گیا خود کو مسلمان کہتے کہتے ” اقبال نے تو خدا اور انسان کے فاصلے کو کم کیا ایک سوچنے والے انسان کے خیالات میں تبدیلی آتی رہتی ہے نہیں آتی تو پتھر میں نہیں آتی۔
اسلام کی نظر تو انسان کے ذاتی شرف پر ہے حسب و نسب پر نہیں ۔اسلام سے قبل انسان سے جانوورں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا پھر اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوئے تو حاکم ٹھہرے پھر غافل ہوئے تو برِصغیر کی شہنشاہی تو گئی ہی مگر ہم پھر سے غلام بھی بن گئے غلامی بڑی لعنت ہے اور یہ وہ کچھ کہلوا سکتی ہے جو انسان نہیں کہنا چاہتا۔عرشِ معلیٰ اور ہر شے کا خالق و مالک ہمیں ہدایت عطاء کر دے۔
تو کچھ نہیں ہے مشکل ”میں حیراں ہوں دو جہانوں میں سماتا نہیں وہ اور اک چھوٹے سے دل میں کیسے سما جاتا ہے خدا” پھر جب ہمیں دوسری
اقوام کی ذہنی غلامی سے اقبال نے اپنی کاوشوں سے باہر نکالا اور علم و تہذیب کی طرف راغب کیا آج ہم عالم فاضل تو ہوگئے مگر افسوس کے کسی کا علم و فعل ہمیں متاثر اور احترام میں حق گوئی سے باز رکھتا ہے ہم غلط کی باز پُرس نہیں کر پاتے اپنی ہی کیفیاتِ نفس میں گھِرے رہتے ہیں ہم۔ ایک کلام کے کچھ اشعا ر پیشِ خدمت ہیں : ”اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں بے باکی اور حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے اب مومن کردار کا،گفتار کا ،عمل کا مومن قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن سرحد کا ہے مومن تو کوئی پنجاب کا مومن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا قرآن کا مومن اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں ! ” رب باری تعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندے محمد اقبال کی سمجھائی ہوئی باتوں پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے (آمین)۔
تحریر: ملک طلحہ لیاقت
راوین، قلعہ دیدار سنگھ، گجرنوالہ