بلاشبہ ٹیلی وژن اور فلم دو ایسے میڈیا ہیں جن کا اثر اور مار بہت دور تک اور ہر گلی کوچے سے لے کر عالیشان محلات تک ہے۔ یہ ایسے ذرائع ابلاغ ہیں جنہیں بہت مؤثر طریقے سے پروپیگنڈا اور اذہان سازی کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی اور امریکی میڈیا اس فن میں بہت ماہر ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہالی ووڈ کی اکثر و بیشتر فلموں اور ٹی وی پروگراموں میں روسیوں کو ولن دکھانا ایک معمول تھا۔ روس کے افغانستان پر حملے اور اس کے بعد طویل عرصے تک ہونے والی جنگ کے زمانے میں ہالی ووڈ کی کئی بلاک بسٹر فلمیں اس موضوع پر بنائی گئیں اور پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ مال بھی کمایا گیا۔
انڈین میڈیا کے تمام آرگنز بہت خوبصورتی سے مسلسل اور مستقلاً ایسے ڈرامے، فلمیں اور دیگر پروگرام پیش کررہے ہیں جن میں کسی نہ کسی پہلو سے مسلمان شخصیات، مسلم روایات و تہذیب، اورمسلم تاریخ کی توہین ہوتی ہو اور اپنے رنگ برنگ پروگراموں کی آڑ میں یہ میٹھا زہر وہ کمال مہارت سے ہمارے بچوں اور ہماری نئی نسل کے دل و دماغ میں اتار رہے ہیں۔مسلمان ہیروز کو غلط انداز میں پیش کرنا انڈین میڈیا کا وطیرہ بن گیا ہے۔ وہ ٹیپو سلطان ہوں یا ظہیرالدین بابر، محمدعلی جناحؒ ہوں یا علاؤالدین خلجی، محمد بن قاسم ہوں یا شہاب الدین غوری؛ اور ایسے ہی کئی دیگر مسلمان ہیروز کی اس متعصب اور حاسد انڈین میڈیا نے مٹی خوب پلید کی ہے اور اپنے ڈراموں اور فلموں میں ان کی خوب غلط تصویر کشی کی ہے اور کر رہا ہے۔
ہم کہ جنہیں بڑھ چڑھ کر ان کا دفاع کرنا چاہیے اور ان کے میڈیا کا توڑ اپنے میڈیا سے کرنا چاہیے ’’ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بنے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اسلام و پاکستان دشمنی میں انڈین میڈیا اپنے ذاتی چھوٹے موٹے کاروباری و دیگر اختلافات بھلا کر فوراً ایک ہوجاتا ہے جبکہ ہمارا میڈیا ان کا مواد دکھانے میں فخر محسوس کرتا ہے، ان کے پروگرام اپنے چینلوں پر بڑھ چڑھ کر چلاتا ہے! ایں چہ بوالعجی است؟ کیا راز ہے، سمجھ نہیں آتا۔ کیا صرف پیسہ؟ کیا ہم اپنا حب دین اور حب وطن کھوچکے ہیں؟ کیا ہم اپنی عظیم الشان تاریخی شخصیات اور شاندار تہذیبی ورثے سے بے نیاز ہوگئے ہیں اور ہمیں کوئی پروا ہی نہیں رہی کہ کوئی ان کے بارے میں کسی بھی طرح کی کردار کشی کے حامل پروگرام اور فلمیں بناتا رہے اور جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتا رہے۔اگر ایسا ہے اور واقعتاً ہمارے میڈیا سے وابستہ اداکار، مصنفین، ہدایت کاران اور سربرآوردہ لوگ اور کار پردازان ایسا ہی سوچتے ہیں تو پھر آگے بات کرنا ہی فضول ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں اور ابھی ہمارے اس میڈیا کے شعبے کے لوگوں میں حب دین اور پاکستان سے محبت کی کوئی رمق، کوئی چنگاری باقی ہے تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ بھی ساس بہو، گھریلو جھگڑوں پر مشتمل ڈراموں اور عشق و محبت کے افسانوں پر مشمل فلمیں ضرور بالضرور بنائیں مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ تاریخی ڈرامے، کچھ اپنی شخصیات و روایات کی خوبیوں اور کارناموں کو اجاگر کرتی فلمیں اور ایسے ہی دیگر پروگرام تخلیق کریں جن سے اس مکارانہ انڈین پروپیگنڈے کا مناسب توڑ ہو اور ہماری نئی نسل اپنے ہیروز کے بارے میں زیادہ بہتر طریقے سے آگاہ ہوسکے۔سونیا گاندھی نے کچھ سال پہلے بڑے طنطنے سے فرمایا تھا کہ ہم اپنے ڈراموں اور اپنی ثقافتی یلغار سے پاکستان کو تسخیر کرلیں گے۔ وہ اپنی اس حکمت عملی پر بڑی مستقل مزاجی سے کام کررہے ہیں اور اپنے بیشتر پروگراموں اور فلموں میں بظاہر بڑی دردمندی اور سادگی سے تقسیم ہند اور سرحدی لکیر کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اس سارے زہریلے پروپیگنڈے کا جواب دینے کےلیے ہم خود کیا کررہے ہیں؟ کیا اپنی تہذیب، اپنے تمدن اور اپنی اہم تاریخی شخصیات کے تشخص کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی؟ ضروری ہے کہ ہم اپنے ذرائع ابلاغ اور شوبز انڈسٹری کا قبلہ ابھی سے درست کرلیں ورنہ وقت گزر گیا تو شاید ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ تحریر:خرم علی رائو بشکریہ ایکسپریس