تحریر : زاہد محمود
ایک زمانہ تھا جب چوروں پر پولیس کا رعب تھا اور اس دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ چور پولیس کے آتے ہی سارا لوٹا سامان وہیں چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے اور پھر کئی دن اپنے گھروں سے باہر ہی نہیں نکلتے تھے مگر وقت بیتتا گیا اور جرم کرنے کے انداز بدلتے گئے لیکن پولیس نے اپنا انداز وہی رکھا مجرموں کے حوصلے بڑھتے گئے لیکن پولیس کا حوصلہ پست ہوتا گیا۔ مجرموں نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لینا شروع کر دیا لیکن پولیس ابھی تک اس ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں ہو سکی۔ مجرموں نے اپنی تکنیک کو کہاں سے کہاں پہنچا لیا لیکن پولیس کی تکنیک ابھی تک وہی۔ مجرموں نے قانون کو پڑھ لیا اور اسکی کمزوریوں کو بھی لیکن پولیس کے کرتا دھرتا ان کمزوریوں کو دور کرنے میں ناکام۔مجرم حد سے زیادہ ہو گئے پولیس کی تعداد انکی ضرورت سے بھی کم ہوگئی۔ مجرم ہوشیار ہوگئے پولیس انکی ہوشیاریوں کو سمجھنے سے قاصر۔ مجرموں نے وسائل کو استعمال کرنا سیکھ لیا اور پولیس نے وسائل کی کمی کا رونا۔ مجرم ترقی پسند ذہنیت اپنائی اور ترقی یافتہ ہوگیا اور پولیس نے رسوم ورواج پر مبنی سوچ پروان چڑھائی اور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ مجرموں نے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے تعلقات بنا لیئے اور پولیس ان ہی لوگوں کی غلام بن کر رہ گئی ایسا کیوں ہے ؟ اور کیا پولیس کی حالت بہتر کی جا سکتی ہے ؟ یقیناکی جا سکتی ہے اور تب ہی کی جاسکتی ہے جب اسکی تنزلی کی وجوہات کو دور کیا جائے۔ پولیس کی تنزلی کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
سیاسی اثر و رسوخ۔ سفارش پر مبنی بھرتیاں۔
بدلتے زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ نہ ہونا۔ ٹریننگ کا فقدان۔ ضرورت سے کم تعداد ۔
بدعنوانی اور بداخلاقی۔ تفتیش کے لوازمات کو ملحوظ خاطر نہ رکھنا ۔ عوام میں حد سے زیادہ گری ہوئی ساکھ۔
پولیس کی کارکردگی کی تنزلی کی اس کے علاوہ بھی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن یہ تمام وجوہات ایسی ہیں جن کو دور کیے بغیر بہترین پولیس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جرائم کی رفتار جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اسکے لیئے اب ہمیں اپنے پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہونگی۔ اور اگر اب بھی ہم نے دیر کی تو وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے اقدامات کیئے جائیں جس سے پولیس کی کارکردگی کو بہتر کیا جاسکے۔ کچھ تجاویز ہیں جو کہ ارباب اختیار تک پہنچانا چاہوں گا۔ آئیندہ بھرتی کو صاف اور شفاف بنیا جائے اور بھرتی کے عمل میں ہونے والی کرپشن اور بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اس ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کی حق تلفی بھی ہو لیکن یہ ایک بہتر معاشرے کی جانب ہمارا پہلا قدم ہوگا۔
پولیس کو ہر طرح کے سیاسی عمل سے پاک کیا جائے اور کسی قسم کا غیر قانونی دباؤ پولیس پر نہیں ڈالنا چاہئے اور جو کوئی سیاستدان یا طاقتور عنصر پولیس پر غیر قانونی طریقے سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے اس سے مؤثر باز پرس کی جائے ۔ خیبر پختونخواہ میں ہمیں پولیس میں سیاسی مداخلت کافی حد تک کم دکھائی دے رہی ہے جس پر آئی جی خیبر پختونخواہ اور خیبر پختونخواہ حکومت مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ پولیس کی ٹریننگ پر بھرپور توجہ دی جائے اور کم از کم ایک ایک لاکھ اہلکار ہر صوبے میں بھرتی کیئے جائیں جنکو دنیا کی جدید ترین سہولیات سے آراستہ کیا جائے ، خاص طور پر دہشت گردی سے نبٹنا اور جاسوسی کا مؤثر نظام ، ناکہ سسٹم بہت پرانا ہوچکا ہے اس سے نہ تو جرائم کو روکنے میں مد د ملتی ہے بلکہ عوام الناس کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جاسوسی کا نظام موثر بنانے کے لیئے زیادہ سے زیادہ خفیہ کیمروں کا استعمال کیا جائے اور شہروں کی مانیٹرنگ کی جائے اور رابطے کا موثر نظام بنایا جائے تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری ردعمل دیا جاسکے ۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ناکے پر اگر کوئی مشکوک شخص یا دہشت گرد دیکھ لیا بھی جائے تو کوئی ایسا طریقہ کار واضح نہیں ہے کہ اہلکار وہیں سے اسکے سدباب کے لیئے اپنے طور پر کچھ کر سکے۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے آن لائن ایف آئی آر کا جو طریقہ کار خیبر پختوخواہ پولیس نے دیا ہے اس میں جو بہتری ضروری ہے وہ کر کے فوری طور پر رائج کیا جائے۔ اور پولیس کی تفتیش کے نظام کو بہتر کیا جائے یہاں ایک بات وثوق سے کہتا ہوں کہ پولیس کے ہاتھ اگر کھول دیئے جائیں تو انکی کارکردگی کافی بہتر ہو سکتی ہے لیکن اختیارات کا ناجائز استعمال روکنے کے لیئے شکایات سیل قائم کیئے جائیں اور ان کی نگرانی اہل اور ایماندار افسران کریں۔ پولیس کی ذہنی تربیت کی جائے اور انکی ویلفئر کے لیئے کچھ اقدامات بھی کیئے جائیں ۔ پولیس ہر 6 مہنیے بعد ایک ہفتے کے لیئے وقفہ وقفہ سے سیر و تفریح کے لیئے بھیجا جائے اور انکو لانا لے جانا محکمے کی ذمہ داری ہو ، اس سے وہ تازہ دم ہو جائیں گے اور اپنی زندگی میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے جس سے عام شہریوں کے معاملات کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
غیر قانونی ہتھیاروں سے ملک کو پاک کرنے کی مہم چلائے جائے اور بلا امتیاز نسل و مذہب کارروائی کی جائے، اور جو شخص بھی ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اسے غدار قرار دیا جائے اور پر امن احتجاج کی روایت کو فروغ دیا جائے اور پرامن مظاہرین پر تشدد نہ کیا جائے اور پولیس ان پر امن مظاہرین کو تحفظ دے ۔ درج بالا تمام تجاویز نیک نیتی سے دی گئی ہیں اور معاشرے کے دکھوں کو دیکھتے ہوئے دی گئی ہیں امید ہے ارباب اختیار اس پر غور ضرور فرمائیں گے۔
تحریر : زاہد محمود
03329515963