تحریر : سجاد گل
تین بندے آپس میں گپ شپ کر رہے تھے، پاکستانی، چینی اور امریکی، چینی کہنے لگا ہماری پولیس ایسی ہے کہ واردات ہونے کے دو ہفتے بعد پتہ لگا لیتی ہے کہ مجرم کون تھا، امریکی نے کہا ہماری پولیس اس سے زیادہ اچھی ہے ہم ایک ہفتے کے اندر اندر اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں،پاکستانی نے کہا ،الحمدا للہ ہماری پولیس تو ایسی ہے کہ واردات سے ایک ماہ پہلے ہی انہیں سب علم ہوتا ہے کہ کیا واردات ہونی ہے اور کس نے کرنی ہے۔آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہماری پولیس کے پاس علمِ غیب ہے جسکی طاقت سے ایک ماہ پہلے ہی واردات کا علم ہو جاتا ہے اور اگر آپکا ایمان کمزور ہے تو یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ پولیس کا خفیہ ادارہ ایسا فعال ومستعد ہے کہ ایک ماہ پہلے ہی پیش آمدہ واردات کی آگاہی فراہم کر دیتا ہے ، جی نہیں جناب ایسی کسی خوشی فہمی اور بدعقیدگی کی ضرورت نہیں ،دراصل اس ملک میں زیادہ تر ہونے والے جرائم پولیس کی اجازت اور سرپرستی سے ہوتے ہیں۔
جنابِ من نجانے پولیس کے متعلق آپ کے کیا جزبات ہیں مگر اپنا تو یہ حال ہے کہ پولیس کا نام سنتے ہی دماغ میں نفرت کے جراثیم پنپنے لگتے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم چور چکار ہیں یا جہل تھانے کی ہوا کھائی ہوئی ہے ،اللہ محفوظ رکھے ابھی تک اس کی نوبت نہیں آئی، اور نہ ہی آگے کسی ایسی نوبت کی مجھ جیسے مسکین بندے سے امید کی جاسکتی ہے، بلکہ اس کا سبب پولیس کاوہ کردار ہے جس نے مجھ جیسے سر پھروں کے جزبات کو یہ رنگ دے دیا ہے،جناب پولیس کا کام ہماری حفاظت ہے چوروں ڈاکوئوں کو پکڑنا ہے ،جرائم و کرائم کی روک تھام ہے،مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے، لاکھوں روپے کا ڈا کہ ڈالنے والے ڈاکوئوں کو چند ہزار روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ دوبارہ اپنا وہی کالا دھندہ شروع کر دیتے ہیں۔
بلکہ ہماری معلومات کے مطابق چورڈاکو پولیس کو ماہانہ بھتہ ادا کرتے ہیںجس کے عوض پولیس نے انہیں کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ جہاں چاہے مرضی32بور دیکھا کر غریب شہریوں کو لوٹتے پھروں ،ضرورت پڑے تو ایک آدھ فائر بھی کر دیا کرومگر خیال رہے فائر ٹانگ میں کرنا بندہ مرنا نہیں چاہیے،اگر کوئی مر جائے تو وہاں سے ایسے گولی ہواکرو کہ لوگوں کے ہتھے نہ چڑھنا،باقی اگر تمہارے ساتھ جہل و تھانے کا معاملہ پیش آجائے تو ہم کس مرض کی دواہیں، ملک میں چلنے والے چکلے اور کوٹھے پولیس کی سرپرستی میں چل رہے ہیں،چھوٹے چھوٹے چرس ڈیلر سینہ تان کر کالاکاروبار کرنے میں مصروفِ عمل ہیں،مگر پولیس پکڑے تو کیوں پکڑے جب ماہانہ بھتے سے پولیس کی جیبیں گرم ہورہی ہیں۔
جناب ہم غریب اور مسکین لوگ تو پولیس کواپنا محافظ اور مخلص نہیں سمجھتے،اللہ جانتا ہے ہمیں انہیں دیکھ کر ایسے ہی ڈر لگتا ہے جیسے بچپن میں چاچا نورا کے کالے کتے کو دیکھ کر ڈر لگتا تھا،اس وقت بھی کوشش یہی ہوتی تھی کہ جس راستے میں وہ کتا بندھا ہوا ہے اس راستے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے اور اب ان پولیس والوں کامعاملہ بھی ایسا ہی ہے،جس راستے پر یہ کھڑے شہریوں سے پیسے بٹور رہے ہوتے ہیں ہم اس راستے سے کَنی کتراتے ہیں،مگر دنیا گول ہے کہیں نہ کہیں ان سے واسطہ پڑہی جاتا ہے،پہلی دفعہ واسطہ اکتوبر2013میں پڑاجب دن دہاڑے ڈاکوئوں نے میری دکان پراسلحہ کے زورپر ڈکیتی کی تھی، ڈکیتی میں بہت نقصان ہوا تھا مگر اس سے زیادہ نقصان بعد میں تھانے کچہری کے چکروں میں ہوا۔
آج کل ہمارے کالم نگار دوست نسیم الحق زاہدی کا واسطہ بھی ان پولیس والوں سے پڑا ہوا ہے،موصوف لاہور میں کرائے کے مکان میں اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ شریفانہ زندگی بسر کر رہے ہیں،نسیم الحق زائدی پی ایف سی سی (پاکستان فیڈرل وکونسل آف کالمنسٹ)کے ممبر بھی ہیں،آپ کی ایک کتاب ”سپہ سالارِامن (حضرت محمد ۖ) منظر عام پر آچکی ہے،آپکی تحریں نظریہ پاکستان کی عکاسی ،اسلامی تہذیب وتمدن اوردردِانسانیت سے مزین ہوتی ہیں۔
آپ بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور چند روزقبل بلڈ پریشر کی ادوایات کھا کر سورہے تھے کہ محلے کے چند اوباش لڑکوں نے حسبِ معمول بغیر سائلینسرموٹر سائیکلوں پر سوارشورغل کرنا شروع کردیا اور جسکی وجہ سے نسیم الحق زائدی نے انہیں سمجھایا کہ وہ ان حرکتوں سے باز آ جائیں مگر انہوں نے بجائے باز آنے کے مزید طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا،نسیم الحق زائدی کے بقول یہ لڑکے ہر روز گلی میں آکر شراب نوشی کرتے ہیں اورموبائل میں گندی فلمیں دیکھتے ہوئے بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہیں ،اس گروہ سے پورا محلہ تنگ ہے۔
نسیم الحق نے قانونی راستہ اختیا ر کیا اور 15پر کال کر کے شکایت درج کرائی ،ایک گھنٹے بعد پولیس نمودار ہوئی اور بجائے ان بدمعاش گروہ کے خلاف کاروائی کرتی بلکہ نسیم الحق زائدی کو ہی تھانے لے گے اورکہنے لگے کہ آپ ان لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے ہو اور کہتے ہومیں صحافی ہوں یہ کر دوں گا اور وہ کر دوں گا،پھر رشوت کا مطالبہ یوں کرنے لگے جیسے ان کا حق ہو، نسیم الحق نے رشوت دینے سے انکار کیا اور گھر واپس آگئے، تھوڑی دیر بعد لگ بھگ پچاس غنڈے بمع اسلحہ ان کے گھر پر حملہ آور ہو ئے اور باعز ت و باپردہ خواتین کو اسلحہ دیکھا دیکھا کر جان سے مار دینے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگے۔
دوبارہ 15پر کال کرنے پر پولیس آئی اور نسیم الحق کو کہا کہ جناب آرام سے زندگی گزاریں ان لوگوں کے معاملے میں نہ پڑیں ورنہ یہ لوگ آپکا یہاں رہنا محال کر دیں گے،یہ بدمعاش لوگ ہیں ان کے پیچھے بڑے بڑے ہاتھ ہیں،یہ ہے حالت ہماری پولیس کی،بجائے ایک شہری کو تحفظ دینے کے الٹا اسے ہی ڈرایا جا رہا ہے۔
اس ملک میں ایک صحافی کے ساتھ جب ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو اسے اتنا ذلیل کیا جاتا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ باقی لوگوں کا کیا حال ہو تا ہو گا،امید ہے اس ساری صورت حال کے بعد ہمارے دوست نسیم الحق بھی پولیس سے ایسے ہی ڈریں گے جیسے ہم بچپن میں چاچانورا کے کالے کتے سے ڈرا کرتے تھے۔
تحریر : سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009
D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi