تحریر : شاہد شکیل
دنیا بھر میں پولیس فورس جوائن کرنے اور ٹریننگ حاصل کرنے کے اپنے اپنے طور طریقے ہیں لیکن پولیس فورس جوائن کرنا آسان نہیں اس کیلئے امیدوار کا نہ صرف صحت مند ہونا لازمی ہے بلکہ دماغی طور پر اور بالخصوص تعلیم یافتہ ہونا بھی اہم ہے۔جرمنی میں پولیس فورس جوائن کرنے کے لئے امید واروں کو کافی پیچیدہ مراحل سے گزرنے کے بعد سلیکٹ کیا جاتا ہے ان مراحل میں صرف مشقت آمیز ٹریننگ ہی نہیں بلکہ دوبارہ تعلیمی نصاب جسے پولیس ایجوکیشن کہا جاتا ہے اور ایک پروفیشن کے طور پر مخصوص پولیس سکولز اور منتخب پولیس کے اداروں اور تنظیموں سے شروع کی جاتی ہے،امید واروں کی تربیت مختلف انسٹیٹیوشن میں لاتعداد ٹریکس کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص تربیتی پلان سے مکمل کی جاتی ہے اس پلان میں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہائی گریڈ رینکنگ ،پوزیشن اور کئی عہدوں مثلاً چیف ایگزیکٹو تک کی ٹریننگ شامل ہوتی ہے کئی صوبوں میں صرف ایک عام پولیس اوفیسر اور کئی صوبوں میں انٹرنل معاملات کی تربیت دی جاتی ہے جیسے کہ ایڈمنسٹریشن، اتھارٹی ، اوفیشل ڈیوٹی اہلکار وغیرہ شامل ہیں لیکن سب کیلئے مکمل تعلیم و تربیت حاصل کرنا بنیادی اصول میں شامل ہے۔
پولیس فورس جوائن کرنے کیلئے چند شرائط پر عمل درامد کئے بغیر کسی بھی امید وار کی سلیکشن ناممکن ہے درخواست دہندہ کی درخواست کو اتھارٹی اپنے سسٹم اور طریقہ کار کے تحت غور کرتی ہے شرائط کا آغاز ہی تعلیم سے ہوتا ہے کہ امید وار کم سے کم ہائی سکول سے بہترین مارکس اور کسی بھی پروفیشن میں کم سے کم تین سالہ تجربہ رکھتا ہو ، دوسری شرط جرمن شہریت ہے لیکن دیگر یورپی ممالک کے افراد بھی درخواست دے سکتے ہیں بشرطیکہ جرمن زبان پر مکمل عبور حاصل ہو تیسری اہم شرط کہ امید وار کا کسی قسم کا مجرمانہ ریکارڈ رجسٹرڈ نہیں ہونا چاہئے،چوتھی شرط کے مطابق امید وار کی عمر کم سے کم اٹھارہ سال اور زیادہ سے زیادہ چھتیس سال ہونی چاہئے،خواتین کیلئے قد آور ہونا لازمی ہے مثلاً کم سے کم ایک سو ساٹھ سینٹی میٹر جبکہ مردوں کا قد کم سے کم ایک سو پینسٹھ سینٹی میٹر لازمی ہے۔
اوپر درج کی گئی شرائط پر پورا اترنے والے درخواست دہندہ گان کو پہلے مرحلے میں سلیکشن کے بعد متعلقہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ آفس میں انٹرویو کے بعد منتخب کیا جاتا ہے اور عام طور پر یہ تمام مراحل دو اور چار دنوں میں مکمل ہونے کے بعد دیگر تربیت کا آغاز ہوتا ہے،مثلاً تحریری یا کمپیوٹر ائزڈ قابلیت ٹیسٹ،نفسیاتی(عقل) ٹیسٹ،جرمن اور انگریزی زبانوں کا ٹیسٹ،علم، ریاضی ، منطقی سوچ، بصری سوچ کی مہارت ،یادداشت، فٹنس ٹیسٹ، دوران سپورٹس برداشت ،طاقت،کو آرڈینیشن ٹیسٹ، جسمانی حرکات و تیزگی ،انٹرویو،بحث مباحثہ،پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹرز سے مختلف ٹیسٹ،فزیکل ٹیسٹ،فوری ایکشن یا ری ایکشن کی صلاحیت کا ٹیسٹ،ڈرائیونگ ٹیسٹ اور کئی ایسے ٹیسٹ بھی لئے جاتے ہیں جو ناقابل تحریر ہیںان تمام ٹیسٹ کے طریقہء کار، ترجیحات ، اوقات مختلف اداروں اور مختلف اشخاص مثلاً ایکسپرٹ عملے و کنٹرولر وغیرہ کی موجودگی میں لئے جاتے ہیں۔عام طور پر تمام ٹریننگ تھیوری اور پریکٹیکل سمیت تین سال میں مکمل ہوتی ہے۔
لیکن اس دوران امید وار مختلف مقامات پر ایک انڈر ٹریننگ اپنی ڈیوٹی جوائن کر سکتے ہیں۔ دورانِ تربیت امید واروں کو تمام قانونی جز پر تفصیلاً اور باریک بینی سے مختلف اوقات ،شیڈول،اور انسٹی ٹیوشن میں عملاً سمجھایا جاتا ہے مثلاً فوجداری قوانین،مجرمانہ عمل کے قوانین، پولیس کے حقوق، انتظامی و عوامی حقوق، آئینی قوانین و حقوق،ٹریفک قوانین ،خصوصی سیکیورٹی پلان ،ڈیجیٹل فوٹو گرافی، ریڈیو ٹیکنالوجی و مواصلاتی تیکنیک ،کرائمز قوانین و حقوق،پولیٹیکل ایجوکیشن ،ڈیوٹی قوانین ،اسلحے کا استعمال و مہارت، سوشل سائنس اور دیگر عملی مضامین مثلاً تعیناتی تربیت ،سیلف ڈیفنس،فرسٹ ایڈ،ہتھیاروں کی شوٹنگ ،فاسٹ ڈرائیونگ ٹریننگ اور سروس سپورٹس وغیرہ۔پولیس ٹریننگ کا آغاز عام طور پر مختلف پولیس اکیڈمی ،کالجز اور انسٹیٹیوشن میں ہوتا ہے۔
جو جرمنی کے مختلف شہروں میں واقع ہیں مثلاً ہیمبرگ ، برلن،فرینکفرٹ،کولون وغیرہ میں تھیوری اور پریکٹیکل مختلف اوقات میں ایکسپرٹ عملے و کوآرڈینٹرز اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے منسلک خاص افراد کے حاصل کی جاتی ہے۔تمام ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد فوری ڈیوٹی جوائن کی جاتی ہے کسی بھی عام انسان کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کون نیا پولیس اوفیسر ہے اور کون پرانا، کیونکہ پولیس والے ذمہ داری سے ملک و قوم کا قانونی طور پر دفاع کرتے ہیں بدیگر الفاظ عوام حکومت سے زیادہ پولیس فورس پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں۔
پولیس والے بھی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے عوام کی ہر قسم کی مشکلات و مسائل کو حل کرنے میں چوبیس گھنٹے چوکنا رہتے اور کسی قسم کی غفلت نہیں برتتے۔عام واقعات و مسائل کے پیش نظر دس اور پندرہ منٹ کے اندر جائے وقوعہ پر پہنچ کر مسائل یا متعلقہ کیس پر تحمل مزاجی اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش یا رپورٹ درج کی جاتی ہے بعد ازاں مسائل کے حل کیلئے لیگل ایڈوائزر سے رابطہ کرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔
تحریر : شاہد شکیل