تحریر: ملک ارشد جعفری
ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں ہے اس کے لیے عوام کو بھی حکومت کا ساتھ دینا ہو گا، عوام کی طاقت کے بغیر حکومت ایک قدم بھی نہیں چل سکتی، موجودہ دہشت گرد ی اور مہنگائی کے دور میں عوام پستے جا رہے ہیں، لیکن طبقہ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ملک میں قانون کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے مختلف محکمہ جات کی کارکردگی بھی صفر ہو گئی ہے، موجودہ حکومت بھی اشرافیہ پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر بزنس مین ہیں جو کہ صرف اپنا ہی فائدہ دیکھتے اور سوچتے ہیں
ملک کا ہر شہری اپنی ذمہ داری کا احساس کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی نہ کرے، اس ملکی ترقی کی وجہ سے سب کو روزگار کے یکساں مواقع فراہم ہوں گے ، ملک میں موجودہ دہشت گردی کے پیش نظر حکومت نے پورے پاکستان سے کرایہ داروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد یہ معلومات حاصل کرنا ہے کہ کسی غیر ملکی نے دوکان یا مکان کرایہ پر حاصل کر رکھا ہے تو کس بنیاد پر اور کن شرائط پر، جس کی وجہ سے مالکان حضرات کافی پریشان نظر آتے ہیں اور اپنی پریشانی کو چھپانے کیلئے پولیس کو صحیح معلومات فراہم نہیں کر رہے جیسا کہ اگر کسی کرایہ دار سے پانچ سات ہزار روپے کرایہ وصول کر رہے ہیں
تو پولیس کو فراہم کردہ بیان حلفی میں وہ کرایہ کو دو ہزار ظاہر کر رہے ہیں جس کا صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر زیادہ سے زیادہ ٹیکس بچایا جا سکے، اس میں کرایہ دار اور مالک مکان دونوں قصور وار ہیں فرق صرف یہ ہے کہ کرایہ دار بے چارا مجبور ہے کیونکہ مالکان کی بات نہ ماننے کی صورت میں اسے دوکان یا مکان خالی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں، حکومت اس بات کا نوٹس لے اور خفیہ طریقے سے نگرانی کر کے یہ معلوم کرے کہ کرایہ دار کتنا کرایہ دے رہا ہے اور مالک مکان یا دوکان نے کاغذات میں کتنا کرایہ ظاہر کیا ہے
اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ غلط معلومات دینے والے کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اسے سزا اور جرمانہ دونوں کیے جائیں، کیونکہ حکومت کو نقصان پہنچانے والے ان عناصر کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، حکومت اس بات سے قطع نظر کاروائی کرے کہ پلازہ یا مکان مالکان کا تعلق کس پارٹی سے ہے اور وہ کس کی ایما پر ٹیکس بچا کر حکومت کو نقصان دے رہے ہیں، مالکان نے ٹیکس بچانے کا مکروہ دھندا کافی عرصہ سے شروع کر رکھا ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی محکمہ ریونیو کے پاس بھی اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے
یہ پلازہ مالکان کتنا ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اگر ڈیٹا موجود ہے بھی تو انہیں اس بات کا پتہ نہیں کہ ان کی پراپرٹی سے آمدن کتنی ہے اور یہ کتنا ٹیکس دے رہے ہیں، اس مسئلہ کی روک تھام کا واحد حل یہ ہے کہ مالکان اور کرایہ دار دونوں کو پابند کیا جائے کہ وہ معاہدہ کرایہ نامہ لکھیں اور اس کی ایک کاپی ریونیو آفس میں جمع کروائیں تاکہ آفس میں بھی یہ معلومات موجود ہوں کہ مالکان کس حساب سے کرایہ بڑھا رہے ہیں اور ان پر ٹیکس کی شرح کیا ہونی چاہیے
اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ حکومت کے پاس صحیح شرح سے ٹیکس کی وصولی شروع ہو جائے گی جو کہ ریونیو آفس کی غلطی کی وجہ سے بہت کم ہے اور یہ طبقہ اشرافیہ حکومت کو ہر طرح سے نقصان دے کر خود عیش کر رہا ہے،اس کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی، دوسرا اہم مسئلہ جس کی طرف میں جناب عابد شیر علی کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص پلازہ تعمیر کرتا ہے
تو اسے پلازہ میں بجلی کے حصول کیلئے علیحدہ ٹرانسفارمر لگوانا چاہیے جو کہ ضرورت بھی ہے اور قانونی طریقہ بھی ، لیکن محکمہ واپڈا کی ملی بھگت سے پچاس پچاس دوکانوں پر مشتمل پلازہ میں بجلی کے صرف دو میٹر لگے ہوئے ہیں جو کہ سراسر غیر قانونی کام ہے ، اس کا صرف اور صرف فائدہ پلازہ مالکان کو ہوتا ہے ، اور وہ محکمہ کی ملی بھگت سے حکومت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کی زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کو جو فزیبیلٹی رپورٹ جمع کروائی جاتی ہے وہ سراسر غلط ہوتی ہے بلکہ بجلی کا استعمال اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوا بلکہ انہوں نے یہ احساس کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ بجلی کی پیداوار کتنی ہے اور کھپت کتنی ہے ۔ یہ اندازہ لگانا بھی بس کی بات نہیں ہے۔ حکومت کو ان تمام مسائل کو آڑے ہاتھوں لینا ہو گا اور عوام کو بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔
تحریر: ملک ارشد جعفری
پاکستان فون 0321-5215037