لاہور (ویب ڈیسک) خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا تو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے رضوان گوندل اور ساہیوال کے آر پی او شارق کمال صدیقی کو اپنے دفتر بلایا۔ جہاں پہلے سے موجود ایک شخص نے چیف منسٹر کے سامنے رضوان گوندل سے خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر
معافی مانگنے کیلئے کہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔نجی ٹی وی چینل پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی روف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ سابق ڈی پی او رضوان گوندل کے ساتھ چیف منسٹر آفس جانے والے دوسرے افسر آر پی او ساہیوال شارق کمال صدیقی تھے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ برس قبل (2014) بہاولنگر میں عالم داد لالیکا نے نوازشریف سے شکایت کی کہ یہاں پر ایک سرپھرا افسر آیا ہے جس کا نا م شارق کمال ہے۔ اس نے میرے ڈیرے پر چھاپہ مار کر میرے کچھ ملازمین کو گرفتار کرنے کی گستاخی کی ہے۔ اس پر نوازشریف ناراض ہو گئے اور انہوں نے آرڈر جاری کیا کہ شار ق کمال صدیقی کو صوبہ بدر کر دیا جائے اور وہ پنجاب میں نوکری نہیں کر سکتے۔اس وقت کے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے اس وقت کے آر پی او احسان صادق کو ٹیلیفون کیا اور کہا کہ اپنے ڈی پی او شارق کمال صدیقی سے کہو کہ تمہارے پاس تین گھنٹے ہیں کہ تم عالم داد لالیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگو۔ احسان صادق نے شارق کمال کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن شارق نے جواب دیا کہ آپ نے جو تین گھنٹوں کے بعد کرنا ہے وہ ابھی کرلیں لیکن میں کھانا کھانے یا معافی مانگنے کیلئے نہیں جاﺅں گا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے میری پولیس کا مورال خراب ہو گا۔روف کلاسرا کے مطابق نوازشریف، شہبازشریف اور مشتاق سکھیرا نے شارق کمال صدیقی کو صوبہ بدر کروایا تو مقامی لوگوں نے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے کیونکہ جب آپ عوام کیلئے کھڑے ہوتے ہیں وہ آپ کو عزت دیتے ہیں۔روف کلاسرا کا کہنا تھا کہ جب شارق کمال صدیقی کو عہدے سے ہٹایا گیا تو اس وقت تحریک انصاف بھی کہہ رہی تھی کہ یہ بہت غلط ہوا ہے۔