گزشتہ ہفتے سندھ پولیس کی جانب سے ایک پولیس اسٹیشن (تھانے) کی سطح پر عوام کے ساتھ برتاؤ اور خدمات میں بہتری کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ سیمینار کے میزبان کراچی رینج کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (اس وقت قائم مقام آئی جی سندھ) مشتاق مہر تھے، جب کہ مہمان خصوصی سابق انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ تھے۔
خیالات کے اظہار کے لیے راقم سمیت مختلف شراکت داروں کو مدعو کیا گیا تھا، جن میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی انیس ہارون،سی پی ایل سی کے سربراہ زبیر حبیب، معروف صنعتکار ایس ایم منیر، نعیم سلیمان ایڈووکیٹ اور سلیم فاروقی کے علاوہ ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرروں کے نمایندوں نے بھی اپنی معروضات پیش کیں۔
سب سے پہلے ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد احمد خان نے سیمینار کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ لیکن اس سیمینار کا سب سے اہم پہلو مقررین کے خطاب سے قبل تھانہ سے متعلق دو اہم اہلکاروں یعنی (اسٹیشن ہاؤس آفیسر) اور ہیڈ محرر کو تھانہ کے عملہ کو درپیش مشکلات پیش کرنے کا موقع دے کر اچھی روایت قائم کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ نظام میں ایس ایچ او تھانے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے اس کی کارکردگی کا ذمے دار ہوتا ہے۔ جب کہ تھانے کا تمام ریکارڈ ہیڈ محرر کی تحویل میں ہوتا ہے۔
دونوں اہلکاروں نے تھانے میں ماتحت عملہ کو درپیش مشکلات کا احسن انداز میں احاطہ کیا۔ راقم نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے برٹش انڈیا میں متعارف کردہ پولیس نظام، قیام پاکستان کے بعد نوآبادیاتی پولیس نظام کا تسلسل، اس میں در آنے والی خرابیوں اور خامیوں اور اصلاحات کے تصورات پر جو گفتگو کی، وہ مختصراً درج ذیل ہے۔
لارڈ میکالے کا کہنا تھا کہ ہمیں ہندوستان میں ایک ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو اپنے خون اور رنگت میں ہندوستانی ہو، مگر اپنے مزاج کے اعتبار سے برطانوی بن چکی ہو۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انیسویں صدی میں انگلستان میں جاگیردارانہ نظام ٹوٹ رہا تھا۔ مگر انگریز حکمرانوں نے برصغیر میں اس نظام کو مزید تقویت دی۔ کیونکہ یہ کلچر نوآبادیاتی نظام کے استحکام کے لیے ضروری تصور ہوتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ برٹش انڈیا میں انگریزوں کی حکمرانی کو استحکام اور تحفظ فراہم کرنے میں ان کے متعارف کردہ انتظامی ڈھانچہ کے ساتھ پشتینی پیروں اور جاگیرداروں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ لہٰذا 1861 میں متعارف کرایا جانے والا پولیس نظام خالصتاً نوآبادیاتی انتظامی سیٹ اپ تھا۔ اس نظام کے تحت قائم کیے جانے والے پولیس اسٹیشنوں (تھانوں) کے قیام کا مقصد عام آدمی کو ریلیف دینے کے بجائے جاگیردارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔
مگر قیام پاکستان کے بعد نوآبادیاتی تھانہ کلچر کا تسلسل معنی خیز ہے، جس نے پاکستان کے عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور قانون کی عملداری قائم کرنے کے بجائے اسی جاگیردارانہ نظام کو تقویت پہنچائی ہے، جسے انگریز حکمرانوں نے پالاپوسا تھا۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست پر جاگیردار اشرافیہ کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور پولیس کے نظام میں کسی قسم کی تبدیلی کے امکانات دم توڑتے چلے گئے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان کی سیاست پر جاگیردار اشرافیہ کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی، جنھوں نے سول سروس کے جاری نظام میں اصلاحات کے بجائے اسے مزید فرسودگی کا شکار کردیا۔ یہی کچھ حال پولیس کے محکمہ میں کیا گیا، جس میں تقرریوں، تعیناتیوں اور تبادلوں میں دانستہ طور پر سیاسی اثرونفوذ کو بڑھایا گیا۔ پولیس جو نوآبادیاتی طرز عمل رکھنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والا پروفیشنل ادارہ تھی، سیاسی مداخلت کے بعد حکمران اشرافیہ کا لے پالک محکمہ بن کر رہ گئی۔
پرویز مشرف کے دور میں پولیس میں اصلاحات لاکر اسے قومی امنگوں کا آئینہ دار بنانے کی اولین کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں 2002 میں ایک پولیس آرڈر متعارف کرایا گیا، جس کے نمایاں نکات یہ تھے: 1۔ پولیس کی کارکردگی کی وفاقی، صوبائی اور ضلعی پبلک سیفٹی کمیشن کے ذریعہ عوامی نگرانی۔ 2۔ پولیس کے محکمہ سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ بالخصوص تقرریوں، تعیناتیوں اور تبادلوں میں۔ 3۔ سٹیزن پولیس لائژن کمیٹیوں کے ذریعے کمیونٹی پولیسنگ کے نظام کی ترویج۔ 4۔ پولیس کمپلینٹ اتھارٹی اور پبلک سیفٹی کمیشنوں کے ذریعے بیرونی احتساب کے نظام کا مکینزم بنانا۔
اس نئے پولیس آرڈر کی سب سے زیادہ مخالفت جاگیردار سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی کے ایک بہت بڑے حلقے نے بھی کی۔ سیاستدانوں کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ ان کی کامیابی کا انحصار جاری تھانہ کلچر پر ہوتا ہے۔ لیکن سول بیوروکریسی کی جانب سے مخالفت کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ اول، وہ اختیارات جو موجودہ پولیس سسٹم میں افسران اور ماتحت عملہ کو حاصل ہیں، ان کے کم ہوجانے کے خدشات تھے۔ دوئم، سول سروس کے بیشتر افسران کا تعلق بھی فیوڈل طبقہ سے ہے، جو نئے نظام کو اپنے طبقاتی مفادکے خلاف سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس آرڈر 2002 کی سب سے زیادہ مخالفت سندھ میں اس جماعت کی جانب سے کی گئی، جس پر روایتی جاگیرداروں کا غلبہ ہے، حالانکہ وہ عوام کے مظلوم طبقات کی نمایندگی کی دعویدار ہے۔
اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بڑے شہروں کے لیے علیحدہ پولیس ڈھانچہ تشکیل دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ انگریز نے ہندوستان چھوڑنے سے قبل تین شہروں (کولکتہ، چنائے اور ممبئی) میں پولیس کمشنریٹ قائم کردی تھی۔ کراچی کی آبادی اس وقت کم تھی، لیکن قیام پاکستان کے بعد جب شہر پر آبادی کا دباؤ بڑھا تو کراچی میں پولیس کمشنریٹ قائم کرنے کا مسودہ جون 1948 میں گورنر جنرل کو بھیجا گیا۔
اس مسودے میں چند غلطیاں تھیں، جن پر سرخ پینسل سے نشان لگا کر بانی پاکستان نے درستی کے لیے واپس بھیج دیا تھا۔ وہ بیماری کے سبب زیارت چلے گئے، جہاں سے واپسی پر ان کا انتقال ہوگیا۔ یوں کراچی میں پولیس کمشنریٹ قائم کرنے کا معاملہ سردخانے کی نذر ہوگیا، جو آج تک وہیں پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق وہ تمام شہر جن کی آبادی ایک ملین (یعنی 10 لاکھ) یا اس سے زائد ہو، میٹروپولیٹن شہر کہلاتے ہیں۔ جب کہ 10 ملین (ایک کروڑ) آبادی والے شہروں کو میگا سٹی کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سفارش ہے کہ ان شہروں کے لیے الگ انتظامی ڈھانچہ بالخصوص پولیس کا نظام تشکیل دیا جائے۔ پاکستان میں کراچی میگا سٹی ہے۔ لاہور میگاسٹی بننے کو ہے، جب کہ درجن بھر کے قریب شہر میٹروپولیٹن ہوچکے ہیں۔ مگر فیوڈل ذہنیت رکھنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتنی بصیرت نہیں کہ وہ پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے اقتدار و اختیار کو حقیقی معنی میں نچلی سطح تک منتقل کرنے پر توجہ دے سکیں۔ جو سیاسی جماعتیں لولے لنگڑے بلدیاتی نظام کو معمولی سے اختیار دینے پر آمادہ نہیں، ان سے مکمل بااختیار مقامی حکومتی نظام کی توقع عبث ہے۔
لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ پولیس کے محکمے میں اے ڈی خواجہ، مشتاق مہر، آزاد احمد خان اور فیض کوریجو جیسے افسران موجود ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کا موجودہ ڈھانچہ فرسودگی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، جسے مکمل تباہی سے بچانے کے لیے اندرونی طور پر محدود وسائل کے ساتھ جو کچھ کیا جاسکتا ہے، کیا جائے۔ یہ ایک اہم پیش رفت اور قابل ستائش اقدام ہے۔ کسی ادارے کے ذمے داروں کو جب یہ احساس ہوجائے کہ ان کے ادارے کی کارکردگی خرابی بسیار کی وجہ سے تباہی کی جانب مائل ہے، تو پھر اصلاح احوال کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر انتظامی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اپنے طبقاتی مفادات کے پیش نظر بیشک پس وپیش سے کام لیتی رہیں، ادارے کے فعال ذمے دار چونکہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی فعالیت اور مستعدی ضرور رنگ لائے گی۔