تحریر : رقیہ غزل
آج ہمیں بیرونی طور پر اگر دہشت گردی کا سامنا ہے تو اندرونی طور پر کہیں نہ کہیں پولیس گردی سنگین صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے پولیس گردی بلاشبہ اگر ایک طرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے تو دوسر ی طرف طاقت کے ذریعے حکومت کرنے کا مئوثر ہتھیار بھی ہے مگر پولیس کی بعض واقعات میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور وہشت ناک کارکردگی کے ضمن میں ایسے قانون شکن پولیس ملازمین کے خلاف یقینی طور پر کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آ رہی جس وجہ سے اسلحے کا بے جا استعمال مسلسل نا حق عوامی جانی نقصان کی وجہ بن رہا ہے اس پر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ملزم اہلکاروں کو تو” پیٹی بھائی” اندراج مقدمہ میں اور پھر ضمانت میں بچا لیتے ہیں مگر جس گھر کا چراغ بجھتا ہے وہاں ہمیشہ کیلئے تاریکی اور ویرانی بسیرا کر لیتی ہے۔
ایسے ہی دو ہولناک واقعات گذشتے ہفتے کراچی میں پیش آئے ایک واقعہ میں ایک نوجوان ”شہریار” جو اپنے گھر سے دوستوں کے ہمراہ سی ویو جانے کے لیے نکلا مگر زندہ گھر واپس لوٹ کر نہ آسکا اس نے سی ویو جانے بارے اپنی ماں کو بھی آگاہ نہ کیا کیونکہ اسے علم تھا کہ ماں اجازت نہیں دے گی مائیں کیسے اجازت دیں وہ جانتی ہیں کہ لہو پانی سے بھی سستا ہو گیا ہے وہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں کیونکر اٹھا ئیں جبکہ ہماری فضا میں لہو کی مہکار رچ بس چکی ہے مگر یہ کیساستم ہے کہ جنھیں مرحم رکھناتھا وہی زخم دینے لگے ہیں۔
شہریار قتل کیس کی تفصیل جو علم میں آئی وہ یوں ہے کہ چار موٹر سائیکلوں پر سوار چھ دوست رات کو سی ویو کی سیر کیلئے نکلے راستے میں اسنیپ چیکنگ میں مصروف دو پولیس اہلکاروں نے انھیں رکنے کا اشارہ کیا تیز رفتاری کے باعث شہریار کی بائیک کچھ دور جا کر رکی جبکہ باقی لڑکوں نے پہلے ہی اپنی موٹر بائیکس روک دیں مگرپولیس اہلکاروں نے ایک سیکنڈ کا بھی اتنظار مناسب نہ سمجھا جیسے ہی شہریار بائیک روک کر مڑا فائرنگ کر دی اور گولی اس کے سر میں لگی اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا مبینہ اطلاع کے مطابق پولیس اہلکاران اسے پولیس مقابلہ کا رنگ دینے کیلئے سوچتے رہے۔
شہریار ان کے سامنے ڈیڑھ گھنٹہ تڑپتا رہا مگر کسی نے بھی اسے ہسپتال نہ پہنچایا اور یوںوہ خالق حقیقی سے جا ملا اور پھر اس کے دوستوں سے کہا گیا جائو اسے ہسپتال لے جائو ۔۔ یہ کہانیاںاسی ایک واقعہ پر ختم نہیں ہوتی ایسے ہزاروں حقائق سے پولیس کے بعض غیر ذمہ داران کی تاریخ لہو لہو ہے مگر دکھ یہ ہے کہ اس بار بھی اس نا قابل تلافی جرم کو دفعہ 302/34سے خطا کی دفعہ 319/320میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اہلکاروں کے بیانات ہیں کہ جب شہریار موٹر بائیک گھما رہا تھا تو انھوں نے ڈرانے کیلئے ڈرامائی انداز میں زمین پرگولی چلائی تھی مگر گولی زمین سے ٹکراکر شہریار کے سر میں جا لگی ہے اس لیے یہ محض اتفاق ہے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا گیا ہے۔
امذید یہ کہ پولیس ان بیانات اور شواہد کی روشنی میں مقتول کے لواحقین سے انصاف کرے گی اوران کے بیانات کی مطابق اس مقدمے میں کسی حال میں بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ شامل نہیں ہوسکتی حالانکہ اگرانصاف و قانون کا تقاضا پورا کرنا ہواور اعلی افسران چاہیں تو ہو سکتی ہے مگر اس صورت میں اہلکاروں سے ٹھن جائے گی۔
دوسرا واقعہ لیاری میں پیش آیا جب ”فرید ” نامی نوجوان اپنے کزن کے ساتھ گھر جا رہا تھا اور اسے رکنے کا اشارہ دیا گیا مگر اس کی موٹر سائیکل بھی تھوڑا آگے جا کر رکی اورسفاک اہلکاروں نے فائرنگ کھول دی اطلاعات کے مطابق اس نے کمپنی کارڈ بھی دکھایا مگر اسے جرائم پیشہ کہہ کر فائر کیا گیا اب وہ ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ان مقدمات کا انجام کیا ہوگا ہم سب جانتے ہیں زندگی جن کی خراب ہونا تھی ہو چکی ہے وہ ماں جو بیٹے کے بتائے بغیر گھر سے نکلنے پر پریشان تھی جب تک زندہ رہے گی دروازے کو تکتی رہی گی اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا ارمان دل میں لیے اس کی یادوںسے سر ٹکراتی رہے گی اس درد کا مداوا کیا کوئی کر سکتا ہے ؟ وہ جو ہسپتال میں موت سے لڑ رہا ہے اس کے گھر کی کفالت کون کرے گا ؟ اور اگر خدا نہ کرے جسم کا کوئی حصہ ضائع ہوگیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔
اسی طرح پورے ملک میں مختلف مقامات پر چوری کے مقدمات میں گرفتار کردہ ملزمان کو انتہائی تشدد کر کے جان سے مار دیا جاتا ہے تاکہ ان سے ریکوری وغیرہ چھپا لی جائے اور مدعی خالی ہاتھ رہے جبکہ یہ آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ دل کا دورہ پڑنے سے موت واقع ہوئی بسا اوقات تو اس حد تک ستم کیا جاتا ہے کہ بغیر اطلاع کے اغوا کیا جاتا ہے پھر ذاتی اہداف حاصل کر کے مدعا غائب کر دیا جاتا ہے کوئی قسمت والا ہوتا ہے کہ جس کے والدین کواس کا سراغ مل جائے کیونکہ پولیس نے خفیہ طور پر اغوا کر کے تشدد کر کے۔۔ فوائد اٹھا کر ۔۔ہلاک کر کے دفن بھی کر دیا ہوتاہے اگراعلٰی عدالتوں ،ملکی حکمرانوں اور پولیس کی مرکزی کمان نے ایسے ماورائے قتل کاروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو پولیس کے مقدس پیسے سے وابستہ ایسے سرکش اہلکاران جواب دیں کہ جب کوئی سانحہ ہوتا ہے ،ڈاکہ پڑتاہے یا کوئی گھر یاعزت لٹتی ہے تویہ بندوقیں وقوعہ ختم ہونے تک کیوں موقع پر نظر نہیں آتیں یہ بے گناہوں پر ہی فوراًکیوں چلتی ہیں ؟آپ کو ڈرانے کے لیے بندوق کیوں چلانی پڑتی ہے۔
آپ کی حساس ذمہ داریوں سے انکار نہیںاور ہم آپ کی مجبوریوں سے بھی آگاہ ہیں مگر مسلسل ایسے ہی واقعات کا رونما ہونا بھی ایک لمحئہ فکریہ ہے جوکہ پولیس کے وقار اور پیشے پر ایک سوالیہ نشان ہے کراچی میں پولیس کارکردگی کا معیار کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے اوررینجرز آپریشن کے بعد تو پولیس کارکردگی ویسے ہی کھل کر سامنے آچکی ہے تاحال پورے ملک میں کوئی بھی واقعہ یا تھریٹ کال ہو توفوج اور رینجرز کوکال کرنانا گزیر ہو جاتا ہے تو پولیس کو کارکردگی دکھانے کا یہ انداز سمجھ سے بالا تر ہے اور اس کے مقابلے میں خالی ہاتھ سڑکوں پر حیلے بہانوں سے رشوت حاصل کرنے والوں کے سامنے پس و پیش کرنے پر فائرنگ کر دینا عجیب معمہ ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومنوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا اللہ تعالی کے نزدیک معمولی بات ہے۔ قتل کے ارادے سے کوئی بھی طریقہ استعمال کر کے جان تلف کرنا خود بڑا گناہ ہے اس جرم میں خواہ ایک شخص کی نیت یا بہت سے لوگ اس میں نیت اور عمل کے ساتھ ملوث ہوں ان کے گناہ کا وبال آپس میں سب پر تقسیم ہو کر بھی ہلکا نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کو الگ الگ جہنم میں جھونکے جانے کی سزا بتائی گئی ہے اور اس بارے سخت احکام بھی ہیں ہمارے پیارے نبیۖ نے فرمایا :”اگر زمین و آسمان کے تمام بسنے والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ عزوجل ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں دھکیل دے گا ” جب قتل کے بارے اس قدر سنگین سزا کا حکم ہے تو دنیا میں ایک سزاوار کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسے دنیاوی سزا سے بچاناکس قدر کبیرہ گناہ ہوگا مگر جب سے ہم ترقی کے زینے چڑھ رہے ہیں۔
ہمارے تقاضے، ہماری روایات اور تعلیمات ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں بے ہنگم معاشرہ نفسیاتی مسائل اور اخلاقی برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ویسے تو ہر قسم کی برائی یہاں عام ہے مگر سب سے مہلک برائی ”ناحق قتل ” کابڑھتا ہوا رحجان ہے معاشی مسائل سے تنگ آکر خود سوزی اور قتل جہاں سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے وہاں دہشت گردی کا عفریت بھی سب کو اپنی لپٹ میں لئے ہوئے ہے آج گھر سے نکلنے والا نہیں جانتا کہ وہ واپس لوٹے گا یا نہیں ۔۔مگر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ” جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے”یعنی جب محافظ ہی راہزن بن جائیں تو آس کے دیپ خود بخود ہی بجھ جاتے ہیں پولیس گردی پر بہت لکھا جا تا ہے اور اس ضمن میں ہمیشہ ہی پولیس کا مئوقف یہ رہتا ہے کہ اب تھانہ کلچر کا خاتمہ ہو چکا ہے اور سپیشل تربیت کی جا رہی ہے تاکہ جرائم کے ساتھ ساتھ پولیس کی احمقانہ اور حاکمانہ طبیعت کو بھی درست سمت میں گامزن کیا جا سکے مگرورق گردانی اور نصیحت آموز باتوں سے علم حاصل ہوتا تو آج سارے ہی عالم ہوتے پولیس گردی کہیں بھی ہو قابل مذمت ہے اور اس بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے کیونکہ عوام کا اعتماد اگر بحال کرنا ہے تو عوام کی جان و مال کو یقینی بنانا ہوگا ہمیں پولیس کی خدمات سے انکار نہیں مگرعدم اعتماد کی فضا ختم کرنے کیلئے پولیس کو اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے یہ طے ہے کہ جرم کرنے والا عوام الناس سے ہو یا کسی حلقہ خاص سے ہو اس کے معاملہ میں قانون اور انصاف کا تقاضا ضرور پورا کرنا چاہیے اور غیرت ایمانی کو محکمانہ وابستگی پر مقدم رکھنا چاہیے۔
روز قیامت جب حشر بپا ہو گا تو اس طرح تھانوں میں بے جا ناجائز تشدد اور سٹرکوں پر بے گناہوں کا قتل پورے ڈیپار ٹمنٹ، افسر شاہی اور حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر سوال و جواب ہو گا اور جزا و سزا ضرور ہو گی۔مگر اس وقت پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔دولت، اختیار، اقتدار اور طاقت آنے جانے والی چیز ہے۔ جبر کرنا ہے تو دہشت گردوں ، سفاکوں ، ڈاکوئں، اغوا کاروں، بھتہ خوروں، ملک و ملت کو لوٹنے والوں اور فراڈیوں پر کریں۔ بے گناہوں کے قتل ناحق سے ہاتھ مت رنگیں۔مگر کیا کیا جائے کہ حکمران آپس میں اکھاڑے گوڈ کر سیاسی دنگل لڑ رہے ہیں۔ انھیں عوامی فلاح کی فکر ہی کب ہے۔ حکمرانوں، عادلوں اور اہل اقتدار ذمہ داران کو چاہیے کہ مجرموں کو سخت سزا دیں مگر حیرت یہ ہے کہ پولیس جیسے مقدس محکمہ کی عزت و وقار دائو پر لگا دی گئی ہے۔
تحریر : رقیہ غزل