counter easy hit

پولیو مرض، حقیقت، خاتمہ کیوں ضروری ہے؟؟؟

Polio

Polio

تحریر: محمد امین بلوچ
یوں تو بچپن سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ پولیو والے آئے ہیں۔ چلو بچوں کو قطرہ پلانے لے جائو یا خود پیووغیرہ جیسے جملے۔ یا ٹیم کو کولر اٹھائے ہوئے چلتا دیکھ کر چند ایک گھر تک ان کے ساتھ چلنا۔جب کچھ سمجھداری کے عمر میں آپہنچے تو کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ یہ لوگ جو آکر بچوں کو قطرے پلاتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے دوائیاں نہیں لاکر تقسیم کرتے صرف اور صرف یہی چیز ہر وقت وقفے وقفے سے لاتے ہیں ۔ یہ سوال کبھی بڑوں سے بھی پوچھا تو مختلف اور متفرق جوابات سننے میں آئے۔ مثلاََ کچھ کہتے کہ یہ ایک بیماری کیلئے یہ قطرے پلاتے ہیں ۔ چند ایک پیسہ بٹورنے کے جملے کستے ۔ یہ لوگ کئی ادویات کی مد میں پیسے لیکر صرف یہ لاکر پلاتے ہیں اور باقی پیسہ اپنے آپ ہڑپ لیتے ہیں/یہ لوگ اس دوائی قطرے کی آڑ میں جاسوسی کرتے ہیں/اس دوائی کے پلانے کا مقصدخاندانی منصوبہ بندی ہے جو مستقبل میں اس بچے کو بانجھ بناتا ہے/اس دوائی میں ایسی چیزیں شامل ہے جن کے پلانے سے دماغی توازن خراب ہوجاتی ہے۔ اس دوائی میں سُور (PIG) کا پیشاب ہے جو امریکہ ہمارے بچوں کو زبردستی پلانے کیلئے بھیجتا ہے۔وغیرہ جیسے ہزاروں جوابات کانوں کو کرید کر دماغ میں پہنچ جاتے۔ پھر جہاں کسی پولیو ٹیم کو دیکھتے تو شدید نفرت بھرے نظروں سے دیکھتے تھے اور اپنے آپ سے کہتے تھے کہ کتنے برے لوگ یہ ہیں ۔۔۔۔

یہ معاملہ ہمارے معاشرے کے ہر بے شعور فرد میں آج بھی ہے اور وہ آج بھی اپنے بچوں کو یہی باتیں بڑے آرام سے سمجھاتے ہیں اور ان کے دلوں میں ایک نفرت اور ایک انکار جو کافی حد تک مضبوط ہو ڈال دیتے ہیں ۔ہوتا کیا ہے ؟ کہ جب یہ بچے بڑے ہوکر ایک باپ کی حیثیت سے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں تو اپنے بچوں کو بھی اسی دُھن پر نچاتے ہیں۔ تو سب سے پہلے یہ سمجھ بوجھ اور شعورہونا ضروری ہے کہ پولیو کیا بلا ہے؟ اور کیوں ہے؟ یہ تمام اخراجات کیوں ہورہے ہیں؟ اس دو قطرے کیلئے اتنی بڑی تعداد میں افرادی قوت کو کیوں ذلیل و خوا رکھا گیا ہے؟یہ سارے لوگ پاگل ہیںجو دن بھر گلی گلی، کوچہ کوچہ اور گائوں گائوں دن بھر بھٹکے ہوئے مسافرکی طرح گردش کرتے رہتے ہیں؟ پھر یہ سب کچھ سمجھنے کے بعد تنقید ہو تو ایک بات ہے ۔ اب جب کہ ان تمام باتوں کا پتا نہیں ہے اوراپنے آپ لمبے لمبے اور من گھڑت مفروضے قائم کرنا اور اس مفروضے کی تبلیغ ؟؟؟ عقل اور فہم سے بالاتر ہے۔

٭آخر پولیو مرض کیا بلا ہے ؟اور یہ کیسا مرض ہے جس کا اگر کوئی مریض نہیں تو پھر بھی اس کو دوائی پلائی جاتی ہے؟ پھر 5 سال سے کم عمر کو صرف کیوں پلاتے ہیں؟بار بار کیوں پلاتے ہیں؟ پولیو (Poliomyelitis) ایک بیماری کا نام ہے جوکہ شخص در شخص منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ درحقیقت اعصاب کو کمزرو کردینے والی بیماری ہے۔ اس بیماری کے مریض کا کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔اس بیماری کے وائرس کا شکار عموماََ 15 سال تک کے بچے ہوتے ہیں۔ اس کا وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص یا بچے میں منتقل ہوکر پرورش پاتا ہے اور اس کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وائرس متاثر ہ شخص یا بچے کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں فالج(جسم کے حصوں کا کام چھوڑنا۔ حرکت نہ کرنا) ہوجاتا ہے۔

1960 اس مرض کی ویکسین ایجاد ہوئی۔ یہ ویکسین 1966 میں قطروں کی صورت میں پلائی جانے لگی۔ پولیو 1998 تک دنیا کے تقریباََ تمام ہی ممالک میں موجود تھااور براعظم افریقہ کے تمام ہی ممالک اس سے شدید متاثر تھے۔ 2011 تک پولیو صرف پاکستان ، بھارت،افغانستان اور نائجیریا میں رہ گیا تھا۔بھارت کو 2011میں پولیو فری قرار دیا گیااور اس کے بعد 2014 میں نائجیریا میں بھی پولیو ختم ہوچکا ہے اور اب پولیو صرف پاکستان اور افغانستان میں رہ گیا ہے۔نومبر 2014 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو دنیا بھر میں پولیو وائرس پھیلانے والا ملک قرار دیا۔ پاکستانیوں پر سفری پابندی بھی لگ گیاپاکستانیوں نے پولیو ویکسین پی کر سرٹیفکیٹس کے ساتھ سفرکی کچھ کو روکا بھی گیا۔ اور پاکستان سے کہا گیا کہ 6ماہ میں پولیو پر کنٹرول حاصل کریں ۔اور مزید کہا گیا کہ اگر ان باتوں پر عمل نہیں کیا گیا تو پاکستانی مسافروں کی اسکریننگ کیجائے گی۔

اگر اس بات پر غورکیا جائے تو پوری دنیا میں پاکستان کیلئے یہ بدنامی ہے تمام ممالک بشمولِ عالمی ادارہ صحت کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں کہ کب یہ ملک پولیو فری بن جائے گا۔کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت پاکستان سے پولیو کی مکمل خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے اسی وجہ سے پولیو کی کیسسزمیں کافی حد تک کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں پولیو کا وائرس پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی، کوئٹہ، کچھ وفاقی قبائلی ایجنسیوں اور خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقوں میں موجود ہے۔ وائرس کا کوئٹہ اور کراچی میں موجودگی کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے تقریباََ تمام اضلاع اور مضافاتی علاقے ہائی رسک پر ہیں ۔۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ روزانہ سینکڑوں افراد بسلسلہ تجارت،روزگار، دفتری کام اور دیگر امور کو نمٹانے کیلئے ان شہروں کا رخ کرتے ہیں اور واپس لوٹتے ہیں۔

پولیو کا وائرس چونکہ بڑوں اور بچوں میں یکساں طورپر انسرٹ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ڈسپرس ہونے کیلئے اس کے جسم میں موجود ہوتا ہے(یہاں یہ بات بتانا لازمی ہے کہ وائرس اگر بچوں اور بڑوں کو لگ سکتا ہے تو صرف بچے کیوں متاثر ہوتے ہیں ۔ اصل میں ڈاکٹروں کے مطابق یہ وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو 15سال سے کم عمر بچوں پر حملہ کرکے ان کو متاثر کرتا ہے۔ جبکہ بڑوں کے اجسام میں اس کے خلاف مذاہمت ہونے کی وجہ سے یہ حملہ نہیں کرسکتا۔ اور اس وائرس کو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑے بھی پھیلاسکتے ہیں)۔ یہ وائرس پاخانہ کے ذریعہ جسم سے نکل کر دوسرے کسی بچے یا بڑے فرد کو لگ سکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان سے آئے ہوئے افغان مہاجرین کی مہربانیوں کی وجہ سے پاکستان کے کئی شہروں میں پھیل گیا ہے۔ اور ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے بڑے انکاری بھی یہی مہاجرین ہیں۔اسی سروے کے مطابق بلوچستان میں 2 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے۔سندھ میں 75ہزار ، خیبر پختونخواہ میں 51 ہزار اور فاٹا میں 60ہزار نونہال بچوں کو پولیو ویکسین نہیں دی جا سکی ہے۔ جبکہ پنجاب میں کوئی ایک ایسا بچہ نہیں جس کو پولیو ویکسین نہیں دی گئی ہو۔

بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں حالات اور کچھ ناممکن رسائی (جہاں ویکسین کا لیکر جانا ممکنات میں نہ ہو)کی وجہ ہے مگر سندھ کا جہاں تک مسنگ پوزیشن ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر بھی پہلے کی بہ نسبت پاکستان میں پولیو کی کیسسز میں نمایاں کمی ہوئی ہے مگر اصل بات کمی کی بھی نہیں کیوں کہ پاکستان کو بالکل پولیو فری بنانا ہے تب تعریف کی جانی چاہیئے۔ جوکمی واقع ہوئی ہے اس کا تمام تر کریڈٹ ہمارے علماء کرام (جنہوں نے اپنے اپنے فتاوی اور تحقیق کے ذریعے پولیو ویکسین کو ایک غیر نقصاندہ، غیر مضر صحت ،حلال اور فائدہ مند قرار دیاہے) ، میڈیا، محکمہ صحت، رضاکار، سماجی تنظیمیںاور حکومت کی پالیسیوں کو جاتا ہے اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں۔مگر پھر بھی کچھ مزید مستحکم اور موثر حکمت عملیوں کی ضرورت ہے جس کے ذریعے بہت جلد پاکستان کو پولیو فری ممالک کی فہر ست میںدرج کیا جاسکتا ہے۔ اب کوئی یہ سوچتا ہوگا کہ پولیو فری کیسے ہوتا ہے؟ تو اس کیلئے یہ جواب ہے کہ اگر کسی ملک میں لگاتار 2سال تک کھوج لگا نے کے باوجود پولیو کا کوئی کیس ریکارڈ نہ ہو تو وہ ملک پولیو فری قرار دیا جاتا ہے۔

پولیو وان کے ویکسین کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں کہ یہ ویکسین نقصاندہ ہے۔حرام ہے۔ ناپاک ہے۔خاندانی منصوبہ بندی کیلئے ہے۔کئی دیگر بیماریوں کا سبب ہے۔ان تمام غلط فہمیوں کا جواب یہ ہے کہ ممتاز و جید علماء کرام نے اپنے اپنے طورپراس ویکسین (OPV)کا اپنے اپنے مسلکوں کے مایہ ناز ڈاکٹروں اور تحقیق کاروں سے تحقیق کروائی جس کے بعد ثابت ہوا کہ پولیو ویکسین میں انسانی صحت کیلئے کوئی مضر چیز شامل نہیں ہے۔یہ ویکسین نونہال بچوں کو زندگی بھر معذوری سے بچانے کے علاوہ دیگر کئی مہلک بیماریوں سے بچائو کا باعث ہے۔اگر بنگلا دیش کو مدنظر رکھا جائے کہ بنگال گورنمنٹ نے تین گروپ بنائی اور کرفیو لگا گرمہم چلائی اور 15سال پہلے پولیو کا خاتمہ کرکے دنیا کے پولیو فری ممالک میں بنگلادیش کو لاکھڑا کردیا۔حیر ت کی بات تو یہ ہے کہ 15سال پہلے بنگلادیش میں نہ میڈیا سرگرم تھا اور نہ خواندگی کا شرح نارمل تھا۔پھر بھی وہاں سے پولیو وائرس کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا گیا۔

٭پولیو کا خاتمہ کیسے ممکن اور کیوں ضروری ہے؟
پولیو مرض کو صرف انتظار اور تماشائی بن کر رضاکاروں کو دیکھنے سے اور من گھڑت باتیں کسنے سے ہرگز ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لعنت سے نمٹنے کیلئے سب سے اہم کوشش کمیونٹی انوالومنٹ اور دلچسپی ضروری ہے ۔پولیو چونکہ ایک ایسا مرض ہے جسکی تشخیص سے پہلے ویکسی نیشن ممکن ہے۔ بعد میں اس کا کوئی علاج ممکن نہیں اس لیئے اس کی ویکسینیشن مرض کو روکنے کیلئے مرض لاحق ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔سب سے پہلا کام یہ ہے کہ بچے کی پیدائش سے ہی قریبی EPIسینٹر سے بچے کے روٹین کے ٹیکے لگوائیں جن میں پولیو کا بھی IPVڈوزز شامل ہے جس سے نہ صرف بچہ پولیو سے محفوظ رہے گا بلکہ وہ دیگر تمام بڑے اور مہلک امراض سے بھی محفوظ رہیگا۔

اس کے علاوہ جو تین روزہ مہم قومی لیول پر یا سپلیمنٹری لیول پر چلائے جاتے ہیں ان میں رضاکاروں اور محکمہ صحت کے لوگوں سے مکمل تعاون کرکے گھر گھر میں ہر 5 سال سے کم عمر بچوں کو دو قطرے پلانے اور پلوانے میں معاونت کا کردار ادا کریں۔ تاکہ ہمارے پھول جیسے نونہال بچے عمر بھر کی معذوری سے بچ سکیں ۔ پولیو ٹیم کو اپنا خیر خواہ مان کر ان کا اس نیک کام کیلئے شکریہ ادا کریں ۔ رہ جانے والے یا غیر موجود بچوں کو قریبی مرکز صحت میں بھیج کر یا لاکر انہیں پولیو ویکسین کے قطریں پلوائیں ۔محکمہ صحت کے عملے پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اس طرح کا پلاننگ اینڈ Struggleکے ذریعہ گھر گھر اور ہر بچے تک رسائی حاصل کرکے پولیو ویکسین کو بچوں تک پہنچائیں۔ انہیں رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر امیر و غریب، معتبر و خانہ بدوش سب کو وقت دیکر ان کے نونہالوں کو پولیو کے قطرے پلائیں۔ اس کام کو اپنا نصب العین سمجھ کر خوب محنت کریں تاکہ بہت جلد ہمارے ملک سے پولیو کک آئوٹ ہوجائے اور پھر کبھی بھی یہاں آکر پر نہ مار سکے۔

Mohammad Amin Baloch

Mohammad Amin Baloch

تحریر: محمد امین بلوچ