تحریر : سید مبارک علی شمسی
پولیو کا وائرس انسانی فضلے کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص کو متاثر کرتا ہے کسی بھی دوسرے شخص کے جسم میں داخل ہونے کے بعد سات سے دس دن کے اندر فریض بخار، نزلہ، زکام، متلی اور پیچس کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کیساتھ ساتھ سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہونے لگتی ہے انسانی جسم میں داخل ہو کر یہ وائرس حلق اور سانس کی نالیوں پر سب سے پہلے اثر انداز ہوتا ہے جس کے بعد یہ انسانی خون میں شامل ہو کر انسان کے اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور جسم کے کسی بھی حصہ میں معذ ور ی کا سبب بنتاہے پو لیو وائر س سے شد ید طو ر پر متا ثر ہو نیوالو ں کیلئے بذات خو د سا نس لینا بھی ممکن نہیں ہو تا جسکی وجہ سے انہیں زندگی بھر سا نس لنیے کیلئے مصنو عی ذرالع کا سہا را لینا پڑ تا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آر گنا ئز یشن کیمطابق پو لیو کا شما ر دنیا کی ان چند خطر نا ک بیما ر یو ں میں ہو تا ہے جس کے ایک بھی مر یض کی مو جو د گی تما م اقو ام عا لم کیلئے خطر ہ ہے 1840ء میںاس مر ض کا با عث بننے والے وائر س کی دریا فت سے لیکر 1960ء میں اس کی و یکسین کی تیا ری تک لا کھو ں افداداس کی زد میں آکر معذوری کی صو رت میں عمر بھر کا روگ پا ل بیٹھے تھے پو لیو وائر س زیادہ5سا ل سے کم عمر بچو ں پر حملہ آور ہو تا ہے اس لحا ظ سے بہت ہی خطر نا ک مر ض ہے اس سے بچا ئو کیلئے پو لیو و یکسین کے دو ،دو قطر ے ہر با ر با قا عد گی سے بچو ں کو پلوائے جا ئیں پا کستا ن میں پو لیو مہم کا آغا ز 1994میں اقو ام متحد ہ کے ذیلی اداروں یو یلیف اور ڈ بلیو اہچ او کے کے تعا ون سے کیا گیا جس کے بعد پو لیو کے مر یضو ں میں خا طر خو اہ کمی آنے لگی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ہما را پا کستا ن پو لیو فر ی ملکو ں کی فہر ست کے انتہا ئی قر یب پہنچ گیا۔
مگر بد قسمتی سے یہ خواب پو را نہ ہو سکا او ر گذشتہ پا نچ بر س کے دوران یہ مر ض ایک با ر پھر تیز ی کیساتھ پھیلنا شر وع ہو گیا ہے 1988میں جب پو لیو سے دنیا کے 125مما لک میں3501000سے زاہد بچے معذور ہو ئے تو یو نیسف اور ڈ بلیو ،ایچ ،او نے دنیا کو پو لیو سے پا ک کر نے کی ٹھا نی انکی بھر پو ر کا و شو ں کے نتیجہ میں2013میں صر ف تین مما لک (پا کستا ن ،افغا نستا ن ،نا ئیجیر یا ) میں مر ض با قی رہ گیا تھا اقوام متحد ہ کا ر کن ملک ہو نے کے نا طے پا کستا ن میں بھی پولیو مہم جا ری ہے 2009میں پا کستا ن میں پو لیو کے 89مر یض سا منے آئے جبکہ 2010میں میں یہ تعداد بڑ ھ کر 144ہو گئی تھی ڈ بلیو ایچ او کے اعدادوشما ر کیمطا بق رواں بر س بھی اب تک مجمو عی طو ر پر پو لیو کے 261کیسز سا منے آمنے ہیں لمحہ فکر یہ تو یہ ہے کہ ان میں سے 209کیسز کا تعلق پا کستا ن سے ہے۔
دوسر ی جا نب 1994سے تا حا ل تقر بیا 268رائو نڈ مکمل ہو چکے ہیں اور اس ضمن میں یو نیسف اور WHOسمیت دو نو ں ادارے دنیا سے پو لیو کے خا تمے کیلئے اتبک 1.2ارب ڈالر خر چ کر چکے ہیں 2014کے 12مہنیو ں میں مہم کے با و جو د بھی 209کیسز کا سا منے آ نا حکو متی نا اھلی اور محکمہ صحت کی بے حسی اور متعلقہ اداروں کی کر پشن اور بے ایما نی کا منہ بو لتا ثبو ت ہے پا کستا ن میں جا ری دہشت گر دی ،عسکر یت پسند ی ،دھر نو ں کی سیا ست جا گیر دار انہ نظا م اور و ڈ یر ہ شا ہی اور سیکو ر ٹی خد شا ت کے با عث 3لا کھ بچے پو لیو کے قطر و ں سے محر وم رہ گئے ہیں جبکہ پا کستا ن کی کل آبا دی میں سے 5سال سے کم عمر بچو ں کی تعد اد 3کر وڑ 40لا کھ ہے بچے ہما را مستقبل ہیں اگر پو لیو کو جڑ سے نہ اکھا ڑ اگیا تو ہما را مستقبل پو لیو زدہ ہو گا اور ہما رے خطہ کا نا م پو لیو زدہ پا کستا ن ہو گا ۔جس میں محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں کے سا تھ سا تھ ہینم خواند ہ ملا ئو ں اور جعلی پیر وں کا بڑاعمل دخل شا مل ہے۔
یہ نیم خواندہ مو لو ی حضر ات اور گنڈ ہ تصو یز کر نیو الے جعلی پیر (ڈبے پیر ) اپنے خا مل مقا صد کے حصول کی خا طر پر و پیگنڈ ے کر تے رہتے ہیں جسکا خمیا زہ پو ری قو م کو بھٹگتتا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ رواں بر س پا کستا ن کے جن26اضلا ع میں پو لیو کے کیسز سا منے آئے ہیں یا تو وہ دہشتگر دوں کی بھینٹ میں ہیں یا پھرنیم خواند ہ طبقے کے پیر و کا ر بن کر جہا لت میں ڈو بے ہو ئے ہیں اب جبکہ ہما را ہمسا یہ ملک بھا ر ت بھی 2011میں پو لیو فر ی مما لک کی مہر ست میں اپنا م نا م درج کر واچکا ہے مگر ہم افغا نستا ن جیسے تبا ہ حا ل ملک سے بھی گئیگزرے ہیں اور ہما رے اوپر سفر ی پا بند یا ں عا ئد ہو گئی ہیں حیر ت کی با ت تو یہ ہے کہ کراچی جیسے پر رو یق شہر میں بھی سیکو ر ٹی خد شا ت کے پیش نظر پو لیو کے کیسز سا منے آئے ہیں کیو نکہ پو لیو قطر ے پلا ئے والی ٹیمو ں میں لیڈ ی ہیلتھ ور کر ز پیش پیشںہوتی ہیں جو ڈور ڈورجا کر بچو ں کو پو لیو کے قطر ے پلا تی ہیں مگر ان سخت جا ن اور جفا کش حواکی بیٹیو ں کو کئی مشکلا ت کا سا منا کر نا پڑ تا ہے دیگر خطرات کیسا تھ کیسا تھ انہیں اپنی عز ت و آبر و اور جا ن کا خطر ہ لا حق رہتا ہے۔
قومی سلا متی کے ادارے سیکو ر ٹی فر اہم کر نے میں نا کا م ہو رہے ہیں جس سے پو لیو کی جڑ یں ہما رے ملک میں مضبو ط ہو تی جا رہی ہیں حکو مت ایک ما نیٹر نگ کمیٹی تشکیل دیکر پو لیو کی ٹیمو ں کی ما نیٹر نگ کر وائے اور پو لیو کی ٹیمو ں کو سیکو رٹی فر اہم کر کے تما م بچو ں کو پو لیو کے قطر ے پلو ائے جا ئیں حکو مت اور چا روں صو بو ںکے و زرائے اعلی ایک ہنگا می میٹنگ بھی کی ہے جس میں آئند ہ 6ما ہ تک پا کستا ن کو پو لیو سے فر ی کر نے کا عز م کیا گیا ہے میر ی دعا ہے کہ ہما ر ی حکو مت ہما ر ے ملک کو پو لیو فر ی بنا نے میں عمد ہ کا م کر تے ہو ئے اپنی تما م تر توانا ئیا ں صر ف کر ے (آمین)۔
تحریر : سید مبارک علی شمسی
Email:mubarakshamsi@gmail.com