تحریر: ایم پی خان
صحت، تعلیم اور روزگار انسان کی بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہیں۔ ہیومن ڈولپمنٹ انڈکس کے مطابق قوموں کی ترقی کا انحصار صحت، تعلیم اورمیعارزندگی پر ہے۔ یہ تینوں عناصر ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ جوقوم صحت کے لحاظ سے کمزورہو، وہ تعلیم کے میدان میں بھی کمزور ہوتی ہے اور نتیجتاً انکا میعار زندگی بہت خراب ہوتا ہے۔
اس طرح جس قوم میں تعلیم کی کمی ہو، وہاں صحت کی سہولیات ناپید ہوتی ہیں اوراچھی زندگی گزارنے کاخواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتا۔ترقی کی اس رفتارمیں ہماراپوزیشن کیاہے، اسکوہندوسوں میں بتانے سے ہمارا سرشرم سے جھک جاتاہے۔دنیاکی پسماندہ قو میں ، جن کی تعدادمشکل سے 40کے قریب ہے، میں ہماراشمارہوتاہے۔ہم ایک طرف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قدرتی وسائل جیسے تیل، گیس، کوئلہ ، سونا،تانبا، نمک، گندھک،کرومائٹ اورجپسم کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
دوسری طرف ہماری مجموعی آبادی کے ساٹھ فی صدلوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔پانچ دریائو ں کی سرزمین ، زرخیزمٹی اورکسانوں کی محنت کی بدولت ہماری برآمدات کابڑاحصہ زراعی پیداوارپرمشتمل ہے۔پاکستانی قوم کی ذہانت کو عالمی سطح پر تسلیم کیاگیاہے۔ جوہری ٹیکنالوجی اورہتھیاروں کے میدان میں پاکستان دنیاکے صف اول کے ممالک میں شامل ہے ۔ پھربھی ترقی کے اس سفرمیں ہم کچھوے کی چال کی مانند ،کبھی چل رہے ہیں اورکبھی کسی درخت کی چھائو ں میں لیٹ کر اپنے شاندارماضی کے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ہماری ترقی کاکیاحال ہے ، HDI کی رپورٹ 2015دیکھنے سے ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
آج بھی کبھی ہماری ترقی کی بات ہوتی ہے توہم موٹروے، کچھ دیگر سڑکیں اوران پر بنے ہوئے چندپل، میٹروبس، کچھ یونیورسٹیاں، جن میں سے ایک بھی رینکنگ کی رفتارمیں دنیاکی چارسویونیورسٹیوں میں شامل نہ ہے، کی مثالیں پیش کرتے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں ہماری ترقی کا معیارنہیں ہیں بلکہ ترقی کامعیاروہی چیزیں ہیں جوہمارامعیارزندگی بلند کریں اورجوعالمی سطح پر یعنی ہیومن ڈولپمنٹ انڈکس کے پیمانے پر ہماری ترقی کے پوزیشن میں بہتری لائے۔
ان میں سے بنیادی عوامل تعلیم اورصحت ہیں۔ہمارے روبہ زوال ہونے کے بنیادی اسباب تعلیم اورصحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کے تمام وسائل کچھ خاص لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں اوروہی لوگ صحت اورتعلیم کی بنیادی سہولیات عوام کوفراہم کرنانہیں چاہتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ سرمایہ کاری صحت اورتعلیم کے شعبوں میں ہوتی ہے کیونکہ یہی دونوں پیسہ کمانے کے بہترین ذرائع ہیں۔بڑے بڑے تعلیمی ادارے اورہسپتال نجی شعبے میں موجودہیں، جن سے صرف وہی لوگ مستفید ہوتے ہیں ، جن کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی ہے۔
عام لوگ نہ توان تعلیمی اداروں سے مستفید ہوسکتے ہیں اورنہ انکے علاج معالجے کے لئے نجی ہسپتالوں کے دورازے کھلے ہوتے ہیں۔دنیابھرمیں سب سے زیادہ بریسٹ کینسر(چھاتی کاسرطان) کے کیسزپاکستان میں پائے جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے سالانہ تقریباً پچاس ہزارخواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہرماہ تقریباً دس ہزارسے زیادہ چھوٹی عمرکے بچے نمونیاکی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیںجبکہ پیٹ کی بیماریوں کی وجہ سے ہرماہ تقریباً ایک لاکھ بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔اسی طرح عارضہ دل، ذیابیطس، ہائی بلڈپریشراورڈپریشن کے مریضوں کی تعدادمیں بھی روزبروزاضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سندھ میں تقریباً بیس بچے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ان تمام سے بڑھ کر پولیوکی بیماری پاکستان کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے پوری دنیاکے 80 فیصدپولیوکیسزکاذمہ دارپاکستان کو ٹہرایاہے اوروہ اسکے خاتمے کے لئے ایڑی چوٹی کاپسینہ ایک کردیتاہے۔اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت، عالمی برادری، اسلامی ترقیاتی بینک، روٹری انٹرنیشنل ،یونیسیف اوربیل اینڈمیلنڈاگیٹس فاونڈیشن پاکستان میں پولیوکے خاتمے کے لئے ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ان اداروں اورمختلف ممالک کے تعاون سے پاکستان میں وزیراعظم پولیومانیٹرنگ سیل اورہرصوبے میں صوبائی مانیٹرنگ سیل قائم ہوئے ہیں ، جن کاکام پولیوکے خاتمے کے منصوبہ کی مانیٹرنگ ، صوبائی اورضلعی سطح پر صحت کے محکموں، ای پی آئی ٹیموں، چیف سیکرٹریوں کے دفاتروں، ڈسٹرکٹ کوارڈنیشن آفسراوردیگرمتعلقہ دفاترکے ساتھ رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔
اس مقصدکے لئے پولیوویکسین ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں، جوگھرگھرجاکربچوں کو پولیوویکسین کے قطرے دیتی ہیں۔بعض حساس علاقوں میں فوج اورپولیس کی نگرانی میں ویکسی نیشن کاعمل جاری رکھاجاتاہے تاکہ ملک کے کسی کونے میں کوئی بچہ بغیرویکسین کے نہ رہ جائے۔پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے پولیوکے خاتمے کے لئے ویکسی نیشن کاعمل جس طرح تندہی اورتیزی سے جاری ہے اورپوری عالمی برادری نے بالعموم اورپاکستان نے بالخصوص اس مرض کو جڑسے اکاڑپھینکنے کا اوراس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنے کاعزم کررکھاہے۔بالکل اسی طرح ایک اورخطرناک مرض، جہالت کابھی ہے، جوروزبروزبڑھ رہاہے۔لہذااسکے تدارک کے لئے عالمی برادری، عالمی ادارہ برائے تعلیم اوراپنی حکومت کو پولیوویکسی نیشن کی طرح ایمرجنسی نافذکرنی چاہئے۔
جہاں جہاں بچوں کو علم کے قطرے پلانے میں دشواری اوررکاوٹیں پیش آئے وہاں اس مقصد کے لئے الگ ٹاسک فورس تشکیل دی جائے اوریہ عزم کیاجائے کہ پاکستان میں جہاں بھی کوئی بچہ علم کی روشنی سے محروم ہے ، اس کو ہرممکن طریقے سے علم کی روشنی سے منورکیاجائے، خواہ وہ کسی جنگل میں رہتاہو، پہاڑمیں یاکسی ریگستان میں اور یاسندھ کے قحط زدہ کسی صحرامیں رہتاہو۔تاکہ آئندہ چندبرسوں میں ایک طرف ہماری قوم پولیوکے بیماری سے نجات حاصل کرسکے تودوسری طرف ہماری تعلیم کی شرح اتنی بلندہوکہ ہیومن دولپمنٹ انڈکس کے پیمانے پر ہماراشماردنیاکی ترقی یافتہ اقوام میں ہو جائے۔
تحریر: ایم پی خان