تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
دنیا میں تقریبا اس مرض کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ صرف تین ممالک میں یہ مرض ہے، اس میں ایک وطن عزیز ہے گزشتہ سا ل پاکستان میں پولیو کے دو سو سے اوپر کیس سامنے آئے تھے، اس سال اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس بات کا نوٹس لے کر انسداد پولیو فوکس گروپ قائم کر دیا تھا ،جو ہر پندرہ دن بعد وزیر اعظم کو رپورٹ دیتا رہا۔
پاکستان میں اس مرض پر ابھی تک قابو کیوں نہ پایا جا سکا اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ،مثلا َ پولیو کی روک تھام کے جو قطرے پلائے جاتے ہیں، ان کا خالص نہ ہونا یعنی ادویات میں ملاوٹ ،اب تک جتنی بیرونی امداد اس مرض کی روک تھام کے لیے لی گئی، اس کا اسی مد میں استعمال نہ ہونا یعنی کرپشن ،پولیو کے بارے میںعوام کو آگاہی کا نہ ہونا الٹا پولیو قطروں کو صحت دشمن خیال کیا جانا ،بعض ایسے علاقے ہیں، جہاں تک پولیو قطروں کی ٹیم رسائی ممکن نہیں ہے وہاں بچوں کو قطرے پلائے نہ جا سکے ہیں ،پولیو ورکرز کے خلاف بعض مقامات پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، اس کی وجہ وہاں پولیو کے قطروں کے بارے میں غلط فہمی کا پایا جانا ہے ۔اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حکومت کیا کوشش کر رہی ہے، اس بارے میں مجھے کوئی خاص کام نظر نہ آیا اگر کہیں کام ہو بھی رہا ہو گا تو اشتہارات یا کوئی کمیٹی بنانے کے سوا کیا ہو رہا ہو گا۔
پولیو کا پاکستان سے خاتمہ کیوں نہ ہو سکا اس کی ایک وجہ پولیو قطروں کے بارے میں غلط افواہیں بھی ہیں ،بھکاریوں کے بچوں کو بھی پولیو کے قطروں کا مکمل کورس نہیں کروایا جاتا ،بعض مقامات ایسے ہیں، جہاں پولیو ٹیموں کا جانا مشکل تر ہے ، اس وقت دنیا میں صرف تین ممالک ہیں، جن میں پولیو کے مریض پائے جاتے ہیں پاکستان ،افغانستان اور نائیجیریا اس کے علاوہ شام میں ایک مریض ملا جب اس کی جنیاتی تحقیق کی گئی تو وہ پاکستانی وائرس سے پھیلنے والا ثابت ہوا جس کے بعد پاکستان پر عالمی ادارہ صحت نے دبائو بڑھا دیا کہ اس مرض کا خاتمہ کیا جائے۔
پولیو ایک قدیم مرض ہے اس کا اب تک علاج دریافت نہ کیا جا سکا جب یہ مرض لا حق ہو جاتا ہے تو علاج ممکن نہیں ہے، ہاں اس کا علاج حفاظتی تدابیر ہی ہیں۔ 1960 میں پہلی مرتبہ پولیو ویکسین ایجاد ہوئی ۔یہ ویکسین قطروں کی صورت میں پہلی دفعہ 1966 دی جانے لگی بہت جلد دنیا سے اس مرض کا خاتمہ ہو گیا ۔لیکن پاکستان میں اس وقت یہ مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، اگر اس مرض پر قابو نہ پایا گیا تو ہمارے بچوں کا مستقبل تو خطرے میں ہے ہی ہم دنیا سے بھی بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
ہم پر دنیا کے سفر کی پابندی کے علاوہ بدنامی کا سبب بھی بن جائے گا ۔اس کا حل یہ ہے کہ ہمارے علماء کرائم ،اساتذہ ،منتخب نمائندے اور سب سے بڑھ کر حکومت اس پر اپنی ذمہ داری محسوس کرے ۔اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ جو پولیو قطروں کے خلاف ہیں، وہ ملک کی ترقی اور صحت کے دشمن ہیں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے۔ ہو سکے تو قانون سازی کی جائے۔اور قطرے نہ پلانا ،اس میں رکاوٹ ڈالنا،قابل سزا جرم قرار دیا جائے وغیرہ ،پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمہ کے لیے مردم شماری کا ہونا بھی ضروری ہے۔عوام کو بھی اس بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور ملک کی نیک نامی کے لیے دن رات کام کرنا چاہیے۔
میڈیا اس بارے بہت اہم خدمات سر انجام دے سکتا ہے ،اسی طرح کالم نویس، پیر ،مرید ،ڈاکٹر ،استاد،مولوی ، لیڈر ،وغیرہ اپنا اپنا کردار ادا کریں تو کوئی مشکل نہیں ہے کہ ہم اس مرض سے نجات حاصل کر لیں اور دنیا میں سر اٹھا کر چل سکیں ۔ بھارت میں گزشتہ 5سال سے پولیو کا ایک بھی مریض سامنے نہیں آیاہے اوریاد رہے کہ یہ وہی بھارت ہے جہاں 1980 میں یہ تعداد لاکھوں کی تعداد میں تھی، اسی بھارت میں 2010 سے اب تک پولیو کا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا۔
پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے صحت سائرہ افضل تاڑر نے چند دن قبل آئی پی وی کو متعارف کروانے کے موقع پر منعقد کی گئی تقریب سے خطاب میں بتایا کہ ملک میں پولیو کیسز میں نمایاں کمی ریکارڈ ہوئی ہے ۔وزیرِ مملکت برائے صحت سائرہ افضل تاڑر نے کہا کہ وہ پرامید ہیں، کہ سنہ 2016 تک پاکستان سے پولیو وائرس کامکمل خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔اخبارات اور ٹی وی پر آگاہی کا اشتہار تو بلا ناغہ چلایا جا رہا ہوتا ہے ،تاکہ عوام الناس میں یہ شعورِ آگہی پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے محفوظ کر لیں۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال