تحریر : بدر سرحدی
کوئٹہ میں پولیو ورکر جن میں تیں خواتین ایک مرد، دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو موقع پر اور دو ہسپتال پہنچ کر جاں بحق ہو گئے، ان میں دو بہنیں تھیں پولیو وکر پر جان لیوا حملے آ ئے دن کا معمول ہے ،لیکن اس مرتبہ اس خبر نے جھنجھوڑ دیا،مگرپاکستان نے چند ثانیوں کی کپکپاہٹ بھی محسوس نہیں کی..؛مجھے یہاں دلی صدمہ پہنچا ،اور فکر کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا، ان کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے، یا یہ انسان نہیں محض روبوٹ تھے ،کہ ہرطرف خاموشی رہی… آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پولیو ورکر پر حملہ کرنے والے سخت سزا کے مسحق ہیں ،اگر تو وہ پکڑے گئے تب ،مگر آج تک نہ تو کوئی پکڑا گیا اور سزا یہ تو بعد کی بات ہے …اور اُسی دن اسلام آباد میں مجلس وحدت المسلمین کے راہنما علامہ نواز عرفانی نا معلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔
سکھر میں جے یو آئی کے راہنما جنرل سیکرٹری سندھ ڈاکٹر خالد سومرو نماز فجر کے وقت گولیوں کا نشانہ بنائے گئے یہ تو محض ٢٦،٢٧ ،نومبر دو تین دن کی خبریں ہیں ….، سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن اور جماعت اسلامی کی قیادت سے سوال ہے کہ ،کیا کوئٹہ میں پولیوورکر جن میں ،خصوصا تین خواتین ؟(مگر وہ انسان نہیں محض کیڑیاں تھی) کو موت کے گھاٹ اتار دیا کیا وہ انسان تھی ،اگر وہ انسان تھی (مگر میرا نہیں خیال .. وہ تو محض روبوٹ تھیں یا پھر کیڑیاں جو مسل دی گئیں اور بس ،) توقاتلوں کی مذمت کیوں نہیں،حکومت سے مطالبہ کیوں نہیں کہ قاتلوں کو گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دی جائے،یہ تو محض مطالبہ ہی ہوتا ورنہ تو….یہ دہشت گرد وں کی کاروائی تھی یا قتال فی سبیل اللہ …..!اب. پھر اِس سوال کی طرف اُن کا جرم کیا تھا۔
حالانکہ پولیو ورکر زپر حملے اک معمول ہے جو دوسرے دن بھولی بسری داستان ،مگر اس قتال نے زہنی طور پر دھچکا دیا ہے ،بڑی تلاش و جستجو کے بعد جرم تک پہنچا ،اِن سب کا ایک ہی جرم غربت ہے،کہ پاکستان نے اُنہیں تنگدستی افلاس کے سوا کچھ نہیں دیا، کہ محض چند ٹکوں کے عوض خود کو موت کے حوالے کر دیتے ہیں، اور شائد قتل ہونے والی دونوں بہنیں گھر کی کفیل تھیں، اور اب اُس گھر میں قیامت کا سماء ہوگا کسی کو علم نہیں ، کہ پھر کوئی خبر نہیں ،کیونکہ یہ مرنے والے انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں ،کسی انسان کے قتل ہونے پر تو ملک میں ہا ہا کار مچ جاتی ہے ہر طرف سے قاتلوں کی مذمت ، اور گرفتاری کے مطالبے، ملک گیر ہڑتال کا اعلان اور بھر سوگ ، جلوس،شاہراہیں بند ، جیسے کراچی سپر ہائی وے کی بند ش سے سندھ بلوچستان میں ٹریفک معطل ہو گئی، ، پشاور موٹر وے بند ،،صادق آباد میں سندھ پنجاب بارڈر پر دھرنا قومی شاہراہ کو ٨ گھنٹے تک بند رکھنا ….! مگر ان محروم و پس ماندہ طبقات کا آئے دن قتال کیوں؟ جن کے لئے کوئی جلوس نہیں۔
کہیں سڑکیں بند نہیں کہیں دھرنے بھی نہیں کہ ان کی کوئی آواز نہیں، اِس لئے کہ ان محروم و پس ماندہ طبقات کو پاکستان نے کچھ نہیں دیا ، حتیٰ کہ آواز تک سے محروم رکھا ، اور یہ ر وزبروز قعر مزلت کے گہرے گڑھے میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں اِن کا واپس اوپر آنا ممکن نہیں ، کہ پاکستان نے ان کے لئے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا ،کہ یہ لوگ بھی کبھی اوپر آ کر رعیت کے غلامی کے خول سے نکل کر آزاد شہری کی طرح زندگی کی آسائشیں اور مساوی حقوق حاصل کر سکیں ، اُسی طرح جس طرح اُن ممالک میں جہا ںطاغوتی نظام ہے، وہاں کے شہری کو زندگی کی تمام سہولتی اور آسائشیں بغیر کسی دھرنے ،اور ہڑتالوں کے حاصل ہیں جن کا ہم یہاں تصور بھی نہیں کر سکتے، بلکہ وہ جنہیں ابھی دنیا میں آنا،اُن کے لئے بھی حصہ مختص ہوتا ہے اور وہ دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جبکہ یہاں تو ساری زندگی ایڑیاں رگڑنے کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا کیوں؟، کہ پاکستان نے کچھ نہیں دیا کچھ نہیںکیا، مگر پاکستان بچار ے کو تو بچپن ہی سے طاغوتی قوتوں نے یرغمال کر لیا ،اور اس کے قیمتی اثاثاجات کو آپس میں بانٹنا شروع کیا ،اور آج جمہویت کے زرق برق لبادے میں یہ بھوکے گِدھ کی طرح عوام کا گوشت بھی نوچ رہے ہیں۔
پاکستان بچارا بے بس خاموش تماشائی کی طرح اِن دردناک مناظر کو دیکھ رہا ہے مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے ، اور یہ عوام بچارا آہ ؛بھی نہیں کر سکتا ،اسے اتنا ہی دیا جاتا ہے کہ اگلے دن کے لئے گدِھوں کی خوراک بن سکے، آجکل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں، جمہوریت کے چمپیئن ادارے اور نام نہاد ،کیڑے مکوڑوں کے ہمدرد صبج شام یہی راگ الاپتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ، یا پھر یہ کہ جمہوریت کو بچاناہے ،ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ میں چاہوں تو آج ہی حکومت گرا سکتا ہوں …مگر ! مصلحت کوشی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے کہ یہ سب ایک ہیں،ہر روز ہی کہیں نہ کہیں میدان سجایا جاتا ہے ،کہیں تحفظ پاکستان،کہیں تکمیل پاکستان، کہیں استحکام پاکستان ،کہیں نیا پاکستان اور کہیں تحفظ نظریہ پاکستان۔
مگر وائے افسوس،ان کیڑے مکوڑوں،اور خاص کر یہ نہتی غریب پولیو ورکرز کے تحفظ کے لئے کچھ کیا جاناچاہئیکہ یہ بھی تو پاکستانی ہیں مگر افسوس مر جانے والیوں کے بوڑھے ماں باپ،اور زیر کفیل بہن بھائیوں کے لئے ،کچھ لوگ مگر مچھ جیسے چند آنسوں بھی نہیں بہاسکتے …آج کا نعرہ اور ضرورت پہلے طاغوتی قوتوں سے پاکستان کو آزاد کرایا جائے کہ ….جو خود یرغمال ہے وہ کسی کو کیا دے گا ؟ اآآجے کاش
تحریر : بدر سرحدی