چند برس قبل اسلام آباد میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس نے پی ٹی آئی کے نوجوانوں پر لاٹھیاں برسائیں تو مظاہرین میں سے ایک خاتون نے بولا کہ ‘ہائے اللہ یہ تو ہمیں مار رہے ہیں، ہم تبدیلی کیسے لے کر آئیں گے’۔
اس جملے پر کئی بار ٹی وی شو کے دوران حنیف عباسی اور سعد رفیق سمیت دیگر لیگی رہنماؤں نے پی ٹی آئی کے نوجوانوں کا مذاق اڑایا اور انہیں برگرز کہا۔
وقت نے پلٹا کھایا، جنوبی ایشیا کے چند طاقتور ترین خاندانوں میں سے ایک شریف خاندان پر ایسا وقت بھی آیا کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو چار بار سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیا گیا لیکن کوششوں کے باوجود عوامی طاقت کا کوئی حقیقی مظاہرہ کہیں نظر نہ آیا۔
جمعہ کی صبح جب میں سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں پہنچا تو بہت تلاش کیا لیکن حکمران جماعت کا مجھے ایک بھی رہنما نظر نہ آیا۔
فیصلے سے دس منٹ پہلے اینکر پرسن سمیع ابراہیم صاحب نے سینئر صحافی عبد القیوم صدیقی صاحب سے پوچھا کہ کیا فیصلہ آئے گا؟
اے کیو ایس بھائی نے بلا کے اطمنان سے جواب دیا کہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا جائے گا اور ساتھ ہی چند وزنی دلائل بھی دے ڈالے۔ اس جواب سے سمیع ابراہیم صاحب، نادر حسین صاحب، ساجد گوندل صاحب اور میں تو مطمعن ہو گئے لیکن صدیق جان کے چہرے پر موجود ذومعنی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ اسے قیوم بھائی سے بالکل اتفاق نہیں۔
گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر بنچ کے چاروں معزز جج صاحبان کمرہ عدالت میں پہنچے۔ چیف جسٹس نے کارروائی شروع کرتے ہوئے بتایا کہ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے لکھا ہے اس لیے وہی پڑھیں گے۔
جسٹس بندیال نے دو منٹ میں مختصر فیصلہ سنایا اور جیسے ہی انہوں نے ‘پرمننٹ بین’ کا لفظ بولا تو میڈیا کے سارے دوست بریکنگ نیوز دینے کے لیے کمرے سے باہر دوڑے۔ ہم نے چونکہ کوئی بریکنگ نہ دینی تھی اس لیے خراماں خراماں چلتے ہوئے اس امید پر سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر میڈیا والے چبوترے تک پہنچے کہ یہاں شاید کوئی حکمراں جماعت کا چے گویرا مل جائے لیکن مایوس ٹھہرے۔
تھوڑی ہی دیر بعد شور سنائی دیا کہ مریم اورنگزیب صاحبہ پہنچ رہی ہیں۔ وہ آ کر عدلیہ پر خوب برسیں اور وہیں سے واپس چلی گئیں۔
ہم بھی باہر پارکنگ میں پہنچے تو مکافات عمل کے کئی مناظر دیکھے۔
ایک درجن سے بھی کم خواتین اور تین مرد حضرات میاں نواز شریف کے حق میں اور میاں ثاقب نثار کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
یہ خواتین احتجاج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی پارکنگ سے شاہراہ دستور پر پہنچی تو ان آٹھ خواتین میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ احتجاج کھڑے ہو کر کرنا ہے یا بیٹھ کر، روڈ پر کرنا ہے یا روڈ سائڈ پر، نعرے چیف جسٹس کے خلاف لگانے ہیں یا نہیں۔
ایک خاتون نے سب کو سمجھایا کہ احتجاج ہمیشہ بیٹھ کر کیے جاتے ہیں اس لیے ہمیں سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ جانا چاہیے۔ خیر بیٹھنے پر اتفاق ہوا، لیکن ایک ہی منٹ میں سب کھڑے ہو گئے کیونکہ سڑک گرم تھی۔
ایک خاتون نے بڑھ کر سپریم کورٹ کے گیٹ کے آگے لگے بیریئر کو کھینچ کر سڑک پر لانے کی کوشش کی تو لیڈی کانسٹیبلز نے اسے سختی سے پکڑا، اور اسی وقت وہ جملہ بولا گیا جو مجھے کئی سال پیچھے لے گیا۔ میاں نواز شریف کی اس ووٹر نے اپنے ساتھ کھڑے مرد سے کہا کہ ‘ہائے اللہ یہ تو ہمیں گرفتار کرنے لگے ہیں، آپ نے کہا تھا کچھ نہیں ہوگا’۔
ایک خاتون نے چیف جسٹس کے خلاف نازیبا گفتگو کی تو اس کے نوجوان بیٹے نے آگے آکر روکا اور کہا کہ امی ایسا ہرگز نہ کریں۔
عمران خان کے برگرز سے نواز شریف کے برگرز کا موازنہ کرنا ہو تو دو نومبر 2016ء کے اسلام آباد لاک ڈاؤن سے پہلے ای الیون کی مارکی پر پولیس کا چھاپہ اور سیمابیہ طاہر کا ویڈیو کلپ ضرور دیکھنا چاہیے۔
وقت پلٹا کھا چکا ہے، پاور والے پاورلیس اور ٹانگہ پارٹی والے پاورفل ہو چکے ہیں