counter easy hit

سیاسی اتحادوں کے مقاصد

الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتیں مختلف اتحادوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف النوع اتحادوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان اتحادوں کا ایک مشترکہ مقصد یہی رہا ہے کہ حکومت وقت کو ہٹایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت حکمران ملک و ملت کے لیے ایک خطرہ بن جاتے ہیں اور انھیں اقتدار سے ہٹانا قومی مفادات کی ضرورت بن جاتا ہے لیکن عموماً اس قسم کے اتحادوں کا مقصد سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کی تکمیل ہی ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر مرحوم بھٹو کے خلاف بننے والا پی این اے اتحاد ہے۔ بھٹو اگرچہ اپنے منشور اور دعوؤں کے برخلاف عوامی سیاست کرنے اور ملک میں مزدور کسان راج لانے کے بجائے وڈیرہ شاہی کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پی این اے کی تحریک ملک میں عوامی جمہوریت لانے یا مزدور کسان راج لانے کے لیے نہیں چلائی گئی بلکہ محض بھٹو کو ہٹانے کے لیے چلائی گئی اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے پنجاب کی کچھ نشستوں پر دھاندلی کی ہے۔

ہمارے انتخابی نظام میں دھاندلی ایک ناگزیر ضرورت کی طرح شامل ہے، اگر پیپلز پارٹی نے پنجاب کی چند نشستوں پر دھاندلی کی تھی تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی لیکن اس رائج الوقت دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا رخ بھٹو کی طرف موڑ دیا گیا اور عوام کو مس گائیڈ کرکے سڑکوں پر لایا گیا۔ چونکہ اس تحریک کو امریکا بہادر کی دامے درمے اور سخنے حمایت حاصل تھی لہٰذا یہ تحریک جنگل کی آگ کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی اور کہا یہ گیا کہ یہ تحریک جمہوریت کی بالادستی کی تحریک ہے، کیونکہ پنجاب کی چند نشستوں پر مبینہ طور پر کی جانے والی دھاندلی کو جمہوریت کے چہرے پر داغ بتایا جا رہا تھا لیکن جمہوریت کے چہرے کے داغ ہٹانے والی یہ تحریک ایک فوجی آمر بھٹو کی جگہ اقتدار میں لا کر جمہوریت کا پورا منہ کالا کرنے کا سبب بن گئی اور دلچسپ بات یہ رہی کہ سارے نو کے نو ستارے جمہوریت کا بیڑہ غرق کرنے والے آمر کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ یہ تھا وہ اتحاد جو سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں سب سے بڑا اتحاد کہلاتا ہے۔

ضیا الحق جیسا ڈکٹیٹر پاکستان پر 10 سال تک حکومت کرتا رہا لیکن سوائے ایم آر ڈی کی مختصر احتجاجی تحریک کے ضیا الحق کے خلاف کوئی موثر اور بڑا اتحاد نہیں بن سکا۔ ضیا الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف امریکا کے کارکن کی حیثیت سے کام کرکے اس ملک کو مذہبی انتہاپسندی کی دلدل میں دھکیل دیا لیکن ضیا الحق جیسے فوجی آمر کے خلاف کوئی بڑا اور موثر اتحاد نہ بن سکا اور جمہوریت کے راج دلارے فوجی آمریت کی گود میں کھیلتے رہے۔ اگر ضیا الحق طیارہ حادثے میں موت کا شکار نہ ہوتے تو اگلے دس سال بھی شاید نو ستاروں کی روشنی میں اطمینان کے ساتھ گزار دیتے۔

2014 میں عمران، طاہرالقادری اتحاد بنا اور اسلام آباد میں تاریخی دھرنا تحریک چلائی گئی۔ ملک پچاسوں شدید قومی مسائل میں غرق ہے لیکن دھرنا تحریک ’’گو نواز گو‘‘ پر ہی اٹک کر رہ گئی، اور ناپختہ قیادت کی وجہ سے یہ مضبوط تحریک آہستہ آہستہ کمزور ہوکر ناکامی کا شکار ہوگئی۔ یہ مضبوط تحریک بھی نان ایشوز پر چلائی گئی اور ’’گو نواز گو‘‘ کی نعرہ بازیوں کی نذر ہوگئی۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی تحریکوں کا ہدف قومی مسائل کے بجائے فرد واحد کیوں رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہماری سیاسی تحریکیں سیاسی اختلافات کی بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہیں اور قومی مسائل کے بجائے فرد واحد ان کا ہدف ہوتا ہے۔

2018 میں انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں اور سیاسی جماعتیں بلا شرکت غیرے حکومت میں آنے یا کسی اتحاد کے ذریعے اقتدار میں حصہ بٹانے کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اشرافیائی جماعتوں اور ان کے دودھ شریک بھائیوں کو عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان کی ساری توجہ پرائم منسٹر ہاؤس پر لگی رہتی ہے اور سارے جوڑ توڑ، سارے اتحاد اسی محور پر گھومتے رہتے ہیں۔ موجودہ صورت حال بڑی دلچسپ ہے، مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار میں ہے لہٰذا اسے کسی موثر اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی پالیسی پر چل کر مسلم لیگ اقتدار پر قابض ہے، اس کی کوشش ہے کہ پنجاب میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرکے حکومت میں رہنے کی سبیل پیدا کرے۔ جو پارٹی بھی اقتدار میں ہوتی ہے اسے دو بڑی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، ایک ریاستی مشینری دوسرا مادی وسائل۔ یہ دو سہولتیں دس سیاسی اتحادوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ مڈل کلاس پر مشتمل مخلص ایماندار اور عوام دوست سیاسی جماعتیں خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں، عوامی ایجنڈا رکھنے والی اور اسٹیٹس کو کے خلاف سیاسی جماعتوں، مزدور، کسان تنظیموں، ڈاکٹروں، وکلا، ادیبوں، شاعروں کی تنظیموں کو ساتھ ملاکر 69 سالہ بدترین اور عوام دشمن اسٹیٹس کو کے خلاف اہم قومی مسائل کے حل پر اتحاد بنالیں اور اشرافیائی سیاست کے خلاف مورچہ لگائیں۔ موجودہ صورتحال میں ایسے کسی اتحاد کی کامیابی آسان نہیں، لیکن اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہوگا کہ ایسا اتحاد عوام میں متعارف ہوگا اور آنے والے الیکشن میں اس کا فائدہ ہوگا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website