تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
ارضِ وطن فنکاروں کے معاملے میں بڑی زرخیز ۔ہم نے اداکاری ،گلوکاری اور موسیقاری کے میدان میں ایسے فنکار پیدا کیے جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پھر جب فلم انڈسٹری کو زوال آیا اور سٹیج ڈراموں سے بیزاری کا اظہار ہوا تو سٹیج فنکارو ںنے الیکٹرانک میڈیاکا رخ کیا ۔آجکل تو نیوز چینلز پر بھی ایسے پروگراموں کی بھر مار ہے جنہیں دیکھ کریوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے کسی گھٹیاسے تھیٹر میں بیٹھے کوئی سٹیج ڈرامہ دیکھ رہے ہوں۔ وہی ذومعنی جملے، وہی پھکڑپَن وہی جگت بازی اور وہی بازاری زبان ۔اِن پروگراموں میں سرِعام دوسروں کی پگڑیاں اچھال کرمزاح پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کسی بھی زاویے سے لائقِ تحسین نہیں۔ لیکن معاملہ چونکہ ریٹنگ کا ہے اِس لیے سب چلتاہے ۔اب توماشاء اللہ ہمارے ”سیاسی فنکار” بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے شوق میں بڑھکیں مارتے اور غیرپارلیمانی زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔پہلے تو صرف محترم الطاف حسین ”اوئے جاگیردارا” ٹائپ ”بڑھکوں” پر انحصار کیا کرتے تھے لیکن اب تو جابجا ایسے ہی ”سیاسی فنکاروں” سے پالاپڑتا رہتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ میدانِ سیاست میں جو جتنا بڑا فنکار، اتناہی کامیاب ۔ہمارے خادمِ اعلیٰ کبھی موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھ کراور کبھی ”گوڈے گوڈے” پانی میںاُترکر سیاسی فنکاری کے جوہردکھاتے رہتے ہیں ۔اپنے پچھلے پانچ سالہ دَورِ حکومت میںوہ ”نام بدلنے” اور”سڑکوںپر گھسیٹنے ”جیسے دعوے اکثر کرتے رہتے تھے ۔مینارِ پاکستان پر اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلتے خادمِ اعلی تو آج بھی سبھی کو یاد ہوں گے ۔یہ یادیں تو اُس وقت ”تازہ بہ تازہ” ہو جاتی ہیں جب گھر میں ”مَر جانی” بجلی ہوتی ہے نہ”ٹُٹ پَینی” گیس ۔ کبھی چھ ماہ اور کبھی دوسال کے دعوے تو ہَوا ہوگئے اب شنیدہے کہ دسمبر 2017ء تک لوڈشیڈنگ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا لیکن
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
خادمِ اعلیٰ تو ایسے ”ڈرامے” اکثر کرتے ہی رہتے ہیں لیکن میاں نواز شریف صاحب کو ہم نے 29 دسمبر کو پہلی بار اس وقت سیاسی فنکاری کے جوہر دکھاتے دیکھا جب اُنہوں نے جی پی او مری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر مری کے باسیوں سے خطاب کیا ۔لوگ حیران اور ہم پریشان کہ وزیرِاعظم صاحب بغیر کسی پروٹوکول اور حفاظتی حصار کے جی پی اوکی سیڑھیوں پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے خطاب کر رہے تھے ۔یہ کوئی امیرالمومنین حضرت عمر کا دور تو ہے نہیں کہ وہ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے تو مسجد نبویۖ کے فرش پر ہی سو جاتے، کوئی حفاظتی حصار نہ پروٹوکول ۔یہ تو اکیسویں صدی ہے جس میں کراچی کے ہسپتال میں”شہزادہ بلاول”کی آمد پر 10 ماہ کی بچی”بِسمہ” نے محض اِس لیے دَم توڑدیا کہ ہسپتال کے سارے دروازے اس شہزادے کی حفاظت کو مدِنظر رکھتے ہوئے بند کر دیئے گئے۔
بسمہ کا باپ اپنی بچی کو ایمرجنسی تک پہنچانے کے لیے ہسپتال کے بیرونی گیٹ کوٹ کریں مارتا رہا لیکن اسے ہسپتال میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا ۔بچی کی ہلاکت پر سندھ کے وزیرِصحت نے فرمایا کہ موت کاوقت مقررہے اور ہسپتالوں میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے ۔دوسرے وزیر با تدبیر نثار کھوڑو کا جواب تھاکہ انہیں بلاول کی جان عزیز ہے اِس لیے حفاظتی حصارتو ہوگا ۔سوال یہ ہے کہ جب موت نے سات پردوں میں چھپے شخص کو بھی آ گھیرناہے توپھر شاہوں، شہنشاہوں ،شہزادوں، شہزادیوں اور مصاحبوں کے لیے حفاظتی حصاراور پروٹوکول کیوں ؟۔ مجھے اس باپ کی بے بسی اور بے کسی پرسب سے زیادہ ترس اس وقت آیاجب کہنہ سال سیاسی فنکار سیّد قائم علی شاہ لیاری میں بِسمہ کے گھر گئے اور ان کی واپسی پر وہی باپ جو ہسپتال کے گیٹ پر دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے فریاد کر رہاتھا کہ پروٹوکول نے اُس کی بچی کی جان لے لی۔
اسی نے قائم علی شاہ کی موجودگی میں تھر تھراتے ہونٹوں سے کہا کہ یہ اللہ کی مرضی تھی ،اِس میں حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں۔ بعد میں نوجوان سیاسی فنکار بلاول زرداری بھی بے بس باپ کے گھر پہنچے لیکن چونکہ وہ نَووارد ونو آموز تھے اِس لیے اپناوہ تاثر قائم نہ کر سکے جو سیاسی فنکاروں کا خاصہ ہے ۔ ویسے بھی وہ گا ہے گاہے ہی نظر آتے ہیں، پیپلزپارٹی کی باگ ڈور تو اب بھی دبئی میں بیٹھے آصف زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے جن سے بڑا سیاسی فنکار پاکستان کی سیاسی تاریخ نے دیکھا نہ سنا۔
الیکٹرانک میڈیا پر شیر خوار بِسمہ کی ہلاکت کا شوراٹھنے کے بعد کپتان صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا ۔انہوں نے یکلخت ”کھڑاک” کر دیا کہ خیبرپختونخوا میں وی آئی پی پروٹوکول ہوگا نہ وی وی آئی پی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ وزیرِاعظم کی آمد پر بھی روٹ لگے گانہ سڑکیں بند ہوں گی ۔جب چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے 26 دسمبر کو صوبے میں وی آئی پی پروٹوکول پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تو ہم بڑے خوش ہوئے کہ کے پی کے میںاِس پابندی کے بعد دوسرے صوبے بھی اِس کی پیروی پر مجبور ہو جائیں گے اور یوں اِس ”ناہنجار” پروٹوکول سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مِل جائے گی لیکن”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ،جو سُنا افسانہ تھا”۔
صوبے کے وزیرِ اعلیٰ ہمارے ”تیلی پہلوان” نوٹیفیکیشن کی ”ایسی تیسی” کرتے ہوئے آج بھی پروٹوکول کی 11 گاڑیوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں۔ پشاور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر کپتان صاحب کے لیے پروٹوکول کا یہ عالم کہ ہسپتال جانے والی ہرسڑک کو بند کر دیا گیا ۔دراصل پروٹوکول تو ویسے کا ویسا ہی ہے ،ہوا صرف یہ کہ پروٹوکول کانیا نام ”سکیورٹی تفصیلات” رکھ دیا گیا ہے۔
صوبے کے افسران کہتے ہیں کہ وہ ”بلیوبک” پر عمل کرنے کے پابندہیں ،خاں صاحب کے احکامات پر نہیں۔ کیایہ سیاسی فنکاروں کی فنکاری کا بہترین نمونہ نہیں کہ پورے پاکستان میں پروٹوکول جاری وساری اور رہبرانِ قوم آج بھی یہ دعوی کرتے ہوئے کہ وہ تو پروٹوکول کے سخت مخالف ہیں۔ سچی بات تویہی کہ ہمارا اِن سیاسی فنکاروں کی اِس پختہ اور منجھی ہوئی اداکاری پرعش عش کرنے کوجی چاہتا ہے۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر