تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
ہمارے ہاں اقتدار کا ہماجس کے سَر پر بھی بیٹھتاہے ،اسی کو سیاسی مجبوریوں کا تارِ عنکبوت جکڑ لیتاہے۔ محترم آصف زرداری نے اپنے اقتدارکے پانچ سال اتحادیوں کی ”منتیں تَرلے”کرتے گزارے ۔اب نواز لیگ کا المیہ بھی یہی۔ تحریکِ انصاف نے آنکھیں دکھائیں تو دیگر سیاسی جماعتوں کے ہاں پناہ گزین، خوف کایہ عالم کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعتزازاحسن نے کسی ”کپتی ساس” کی طرح چودھری نثاراحمد کو رَکھ رَکھ کے طعنے دیئے لیکن حکومتی لَبوں پہ مہرِ خاموشی، تحریکِ انصاف مستعفی ہوئی تو استعفے منظورکرنے میں صریحا غیرآئینی ہچکچاہٹ۔
حامد میر نے محترم ایازصادق سے چبھتا ہوا سوال کیا کہ جب آئینی طور پر تحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ کے استعفے ہوچکے تھے تو انہیں منظور کرنے میں کو تاہی کیوں برتی گئی؟۔سپیکرصاحب کاجواب تھاکہ آئین اُنہیں انفرادی تحقیق وتصدیق کی اجازت دیتاہے۔ حامدمیر نے کہا کہ عمران خاں توہر روز کنٹینر پرکھڑے ہوکر یہ اعلان کرتے تھے کہ وہ مستعفی ہوچکے پھر خاں صاحب کااستعفٰی کیوں منظور نہیں کیا گیا؟۔ ایاز صادق کا جواب بہت دلچسپ کہ پارلیمنٹ کے باہرسب باتیںسیاسی اور پارلیمنٹ کے اندرآئینی وقانونی۔ گویاآئین کی عمل داری صرف پارلیمنٹ کے احاطے تک محدود۔ اب ایم کیوایم بھی مستعفی ہوچکی لیکن پھر ”نظریۂ ضرورت” آڑے۔ اوّل اوّل تونوازلیگ ڈٹی رہی اور کہا
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
ایم کیوایم نے تو اپنی ” خو” نہ چھوڑی البتہ نوازلیگ کو اپنی ”وضع” بدلنی پڑی اوراب سبک سَری کایہ عالم کہ استعفوں کی واپسی پر حکمران آمادہ البتہ باہربیٹھے ”بھائی” کے فیصلے کاانتظار۔ استعفے لینے اوردینے کے شوقین کپتان صاحب تو چاہتے ہی یہ ہیںکہ ”گلیاں ہو جان سنجیاں وِچ مرزا یار پھرے”۔ پہلے وہ استعفے کے لیے وزیرِاعظم ہاؤس پرچڑھ دوڑے اوراب چاروںصوبائی الیکشن کمشنرز اور چیئرمین نادرا کو مستعفی ہونے کاحکم صادر۔
صوبائی الیکشن کمشنرز نے خاں صاحب کے خط کا” ٹَکاسا” جو اب دے دیا ہے اِس لیے ہو سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک دفعہ پھر پارلیمنٹ کو داغِ مفارقت دے جائے لیکن ہم کہیں گے کہ تحریکِ انصاف اب کی بار ایسا نہ کرے کیونکہ جب وہ دوبارہ ”نیویں نیویں ” ہو کر پارلیمنٹ میں جائیں گے اور ان کا استقبال ” کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیا ہوتی ہے” جیسے استقبالی نعروں سے ہو گا تو ہمیں شرم بہت آئے گی۔
عشقِ عمران میں ” گوڈے گوڈے”دھنسے ہوئے ایک محترم لکھاری فرماتے ہیں ”اخلاقیات کا تقاضہ یہ تھاکہ سردار ایاز صادق اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتے ،اپنی تنخواہوں ،مراعات اوربیرونی دَوروںکا حساب کرتے پھر اُن اخراجات کو جمع کرتے ۔ جوحساب کتاب ہوتا،خاموشی سے سرکاری خزانے میںجمع کروا دیتے ،مگرافسوس ایسانہ ہوسکا”۔ افسوس ،صد بلکہ ہزار افسوس کہ نہ سردارایاز صادق یہ پیسے دینے کوتیاراور نہ ہی نیاپاکستان بنانے کاعزم لے کراُٹھنے والے سولہ ،سولہ لاکھ واپس کرنے کے لیے آمادہ۔ ویسے سردارصاحب کافیصلہ توابھی سپریم کورٹ میںہونا باقی ہے لیکن نئے پاکستان کے ”بانیان” تواپنی مرضی سے استعفے دے کربھی بقایاجات وصول کرچکے۔
محترم لکھاری نے ایازصادق صاحب کو یہ ”اخلاقیاتی ”مشورہ بھی دیاہے کہ وہ خواجہ سعدرفیق کی طرح ”سٹے آرڈر”کے پیچھے چھپنے کی بجائے عوام کی عدالت میں جا ئیں۔ مشورہ تو مفید ہے لیکن ایسے مشورے وہ اپنے ممدوح عمران خاںکو کیوں نہیں دیتے جن کی جماعت کے مرادسعید ،قیصرجمال اوررائے حسن نواز سمیت چھ سے زائد اراکینِ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے سٹے آرڈرکی ”بُکل” مارے بیٹھے ہیں۔ محترم لکھاری نے جسٹس کاظم ملک کے فیصلے پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ” قوم کوایسی سوچ پر ماتم کرناچاہیے جوانصاف اورانصاف دینے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔۔۔۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی تو عمران خاںنے اِس فیصلے کومن وعن قبول کیا حالانکہ عمران خاں کو بہت کچھ بتایا گیا مگر اس نے کہا کہ نہیں، میں یہ کہہ چکاہوںکہ جوبھی فیصلہ آیاوہ قبول ہوگا لہٰذا اب میںاِس پرکوئی تنقید نہیں کر سکتا”۔
عرض ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد سے خاں صاحب متواتر یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ نوازلیگ ،الیکشن کمیشن اور آر اوزنے مِل کر دھاندلی کی جبکہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنے 902 صفحات پر مشتمل فیصلے میں صراحت کے ساتھ لکھاکہ دھاندلی ہوئی نہ کوئی سیاسی جماعت منظم دھاندلی میں ملوث ہے۔ جس اندازمیں خاںصاحب نے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تسلیم کیا ،بالکل ویسے ہی ایازصادق نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل کاحق محفوظ رکھتے ہوئے کاظم ملک صاحب کے فیصلے کوتسلیم کیا۔ پھر سارے اخلاقی سبق اورساری تلملاہٹ صرف نوازلیگ کے خلاف ہی کیوں؟۔ ویسے محترم کاظم ملک نے جوفیصلہ دیاوہ تومتنازع ہے ہی کیونکہ انہوںنے 2014ء میںدیئے جانے والے اپنے ہی فیصلے کی نفی کردی۔
وہ سپریم کورٹ کاحوالہ دے کریہ فیصلہ دے چکے کہ اگر کاؤنٹر فائلز کی پشت پرمہر اوردستخط نہ ہوں لیکن باقی سب درست ہوتو ڈالا جانے والاووٹ درست تسلیم ہوگالیکن حلقہ 122 کاالیکشن کالعدم قراردینے کی بنیادہی 23 ہزار کاؤنٹر فائلز کی پشت پر پریذائی ڈنگ آفیسر کی مہر اور دستخط نہ ہونے پررکھی گئی ۔حقیقت یہ کہ پولنگ سٹیشنز پر صبح کے اوقات میںبے تحاشہ رش ہوتاہے اِس لیے مختصر سے انتخابی عملے کے پاس اتناوقت ہی نہیںہوتا کہ وہ کاؤنٹر فائل کی پشت پرمہر اور دستخط کرسکیں۔ جب رَش کم ہوتاہے توپھر کاؤنٹر فائل کی پشت پر مہر اور دستخط جیسی ”بے کار” پریکٹس کی جاتی ہے۔ بطور پریزائیڈنگ آفیسر میںنے کئی مرتبہ ڈیوٹی سرانجام دی اور ہمیشہ اِس الجھن کاشکاررہی کہ جب کاؤنٹرفائل ہرلحاظ سے مکمل ہوتی ہے تو پھر اُس کی پشت پرمہراور دستخط کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟۔
جب جوڈیشل کمیشن یہ طے کرچکاکہ انتخابی بے ضابطگیوںکی بنیادپر الیکشن کالعدم قرار نہیں دیاجا سکتااور عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی شِق 68 (2) کے مطابق اگر ٹربیونل مطمئن ہو کہ کوئی کرپٹ یا غیرقانونی عمل کسی امیدوار یااُس کے الیکشن ایجنٹ کی مرضی یا اکسانے پر نہیں ہوا تو انتخاب کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا تو پھر محترم جج نے ایازصادق صاحب پر دھاندلی کاکوئی الزام لگائے بغیر صرف انتخابی بے ضابطگیوں کو بنیاد بنا کر حلقہ 122 میں دوبارہ پولنگ کا حکم کیسے صادر فرما دیا؟۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر