پستی اور بلندی کے دو الگ الگ پہلووں کے ساتھ دنیا داری کی زندگی کے عوامل کا چلنا گزشتہ کچھ دہائیوں سے ایک معمولی عمل ہے بڑا اور چھوٹا امیر اور غریب میں فرق تو کبھی مذہب اسلام کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تو ہر حیثیت کے واضح اور منفرد حقوق شامل ہیں جاہل اور فعاش معاشروں میں ہمیشہ پسے ہوئے طبقات کو تماشے کے طور پر دیکھا گیا۔ اور اپنایا گیا اور ان کی جگ ہنسائی کرکے خود کو دلی تسکین فراہم کرنے کا عمل جاگیرداروں کے اندر ناصرف سابقہ معاشروں میں قائم تھا آج بھی بسا اوقات موجود ہے۔
پنجاب کے دیہی کلچر میں متعدد دیہاتوں پر چوہدراہٹ کا غلبہ اور غریب افراد کی پسپائی کو ختم نہ کروانے کیلئے بھرپور کوششوں کا عمل جاری و ساری ہے۔ بدقسمتی سے چوہدراہٹ ازم کے ذاتی تعلقات کی لہر اور برادری ازم کا ایک نیٹ ورک موجود ہونے کے باعث بعض اوقات چھوٹے اور کمزور طبقات کی بھرپور محنت کو بھی دبا دیتا ہے اور وہ انتہائی ایام میں کسی ایم پی اے یا ایم این اے کی شاندار مخالفت کرنے کے بعد بھی خود کو ان کے انتہائی قریب ہونے کا احساس دلا کرعلاقائی معملات میں ان کے حصے کے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان فنڈز کو اعلانیہ طور پر مجموعی آبادی کے تحفظ اور ان کی سہولیات کی فراہمی کیلئے خرچ کرنے کی بجائے صرف اپنے ذاتی پروٹوکول اور ذاتی رہائشوں کے گرد خرچ کرکے اپنے وڈیرہ ہونے کا عملی ثبوت فراہم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
آج ہم جب کہ 2017کے جدید ترین اور ترقی یافتہ دور میں سے گزر رہے ہیں اور ہر فرد آزاد خودمختار زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے مذہبوں کی تفریق کو ختم کرکے برادریوں کی تفریق کو ختم کرکے ہر انسان باوقار طریقے سے زندگی گزارنے کیلئے پرعزم ہے جس میں پاکستان کے میڈیا نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور عام آدمی کو اپنا حق حاصل کرنے کے طریقے اور اصول بتائے جبکہ وڈیرے افراد کی زیادتی کے معاملات کو نشر کرکے ان کی حوصلہ شکنی کی لیکن معاشرے میں تبدیلی کیلئے جہاں پر میڈیا کا کردار اہم ہیں تو وہیں پر حکومتوں کے نمائندوں کو بھی برادری ازم اور چوہدراہٹ ازم کے کلچر کو ختم کرکے میرٹ کی بنیادوں پر معاملات کو چلانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
جب تک کمزور فرد کو معاشرے میں انتہائی مقبولیت حاصل ہونے کے بعد بھی اس کی مقبولیت کو دیکھا اور جانچا جانے کے بغیر انتخابات میں اس کے مقابلے کی صف میں کھڑے ہونے والے افراد جو کہ عوامی نمائندوں کی شاندار مخالفت کا سبب بنے کو صرف بڑے ناموں وڈیرہ ازم اور بڑا چوہدری ہونے کی بنیادپر فرنٹ کی کرسیوں پر بٹھانے کا عمل جاری رہے گا اس وقت تک پاکستان کا سیاسی نظام درست سمت چلنے سے یقیناََ قاصر ہوگا اور علاقائی چوہدراہٹ کی طرف سے حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی چھوٹی چھوٹی سہولتوں کو اس کے اصل حق داروں تک پہنچانے کی بجائے خود ہی ہڑپ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا تو اس وقت تک حکومتوں کے اقدامات مراعات اور سہولتوں کے معاملات میں چھوٹے طبقات میں مایوسی کے معاملات ضرورت گردش کرتے رہینگے میرٹ کی بنیادوں پر جاری کی جانے والی سکیموں مثلا چھوٹے زرعی آلات زرعی بیجوں اور دیگر معاملات کو سرعام سرکاری نمائندوں کے سامنے عوام کے اندر بیٹھ کر دیدا دلیری سے میرٹ سے ہٹ کر اپنائے جانے کے معاملات جاری رہینگے تو اس وقت تک عوام کا اعتماد حکومتوں اور منتخب عوامی نمائندوں پر پورا نہیں اترے گا۔
پاکستان کے سیاسی نظام اور ڈھانچے میں عوامی نمائندوں کی جانب سے میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے اور اپنے اختیارات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہی عوام ہر انتخاب میں نئے چہروں کو منتخب کرتی ہے اور کبھی کبھار ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک فرد مسلسل دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ اقتدار کے منصب پر فائز ہوسکے جس کی بنیادی وجہ ان کے سیاسی معاملات کا درست سمت میں جانا نہ ہوتا ہے اور عوام نئے چہرے کے انتظار میں اسے ریجکٹ کرکے پھینک دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے آنے والا نیا چہرہ بھی وہی روش اختیار کرتا ہے تو سیاسی نظام کی تبدیلیوں میں 2017کے انٹر نیٹ کے دور ترقی یافتہ ادوار اور میڈیا کی بھرپور کوششوں کے باعث بھی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔